غیر ِسنّی کو سلام کرنے کا حکم

04/03/2018 AZT-26085

غیر ِسنّی کو سلام کرنے کا حکم


السلام علیکم میراسوال آپ سے یہ ہے کہ غیر ِسنّی کو سلام کرنا کیساہے ؟سیّد محمود علی C-2فیملی کالونی ،انصاری شوگر مل، ٹنڈوغلام حیدر ۔

الجواب بعون الملك الوهاب

غیرسنّی خواہ کا فر ہو یا بدمذہب دونوں کو سلام کرنا حرام ہے۔ہاں اگر وہ سلام کریں تو سنّی جواب دے سکتاہے ،مگر جواب میں صرف عَلَیْکُمْ یا السلام علیٰ من اتّبع الھدٰی کہے،وعلیکم السلام نہ کہے ۔

چنانچہ احادیث مبارکہ میں ہے ۔

(۱)عن أبی هريرة رضي الله عنه أنه قال: " لا تبدؤوا اليهود ولا النصارى بالسلام, فإذا لقيتم أحدهم في طريق فاضطروه إلى أضيقه". (رواه مسلم 2167)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی  ہے، کہ رسول اﷲصلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا: ''یہود و نصاریٰ کو ابتداءً سلام نہ کرو اور جب تم ان سے راستہ میں ملو تو ان کو تنگ راستہ کی طرف مضطر کرو۔''

(۲)عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ أَبِي إِلَى الشَّامِ، فَجَعَلُوا يَمُرُّونَ بِصَوَامِعَ فِيهَا نَصَارَى فَيُسَلِّمُونَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ أَبِي: لاتَبْدَئُوهُمْ بِالسَّلامِ؛ فَإِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <لاتَبْدَئُوهُمْ بِالسَّلامِ، وَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فِي الطَّرِيقِ فَاضْطَرُّوهُمْ إِلَى أَضْيَقِ الطَّرِيقِ >۔

(رواه مسلم ۲۱۶۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۶۸۲) 

سہیل بن ابوصالح کہتے ہیں کہ:میں اپنے والد کے ساتھ شام گیا تو وہاں لوگوں ( یعنی قافلے والوں) کا گزر نصاریٰ کے گرجا گھروں کے پاس سے ہونے لگا تو لوگ انہیں ( اور ان کے پجاریوں کو ) سلام کرنے لگے تو میرے والد نے کہا: تم انہیں سلام کرنے میں پہل نہ کرو کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہم سے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث بیان کی ہے، آپ نے فرمایا ہے:'' انہیں ( یعنی یہود ونصاریٰ کو ) سلام کرنے میں پہل نہ کرو، اور جب تم انہیں راستے میں ملو تو انہیں تنگ راستہ پر چلنے پر مجبور کرو''، (یعنی ان پر اپنا دباؤ ڈالے رکھو وہ کونے کنارے سے ہو کر چلیں )۔

(۳)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہماسے روایت ہے، کہ رسول اﷲصلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا:''جب یہود تم کو سلام کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں السام علیک تو تم اس کے جواب میں وعلیک کہو یعنی وعلیک السلام نہ کہو۔اور اسی کی مثل انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی روایت ہے کہ اہل کتاب سلام کریں تو ان کے جواب میں وعلیکم کہہ دو ۔

(صحیح البخاري:کتاب الاستئذان،باب کیف الرد علی اھل الذمۃ بالسلام، الحدیث :۶۲۵۷،ج۴،ص۱۷۴)

اور فتاوٰی رضویہ میں ہے:

ہاں بدمذہب کو سلام کرنا حرام ہے۔ فاسق کو سلام کرنا ناجائزہے۔ جو برہنہ ہو یا استنجا کررہا ہو اسے سلام نہ کرے۔ جو کھانا کھار ہا ہو اسے سلام نہ کرے۔ جو اذان یا تلاوت یا کسی ذکر میں مشغول ہو اسے سلام نہ کرے۔ کافریا مبتدع یا فاسق کو سلام کرنے کی صحیح ضرورت پیش آئے تولفظ سلام نہ کہے بلکہ ہاتھ اٹھانے یا کوئی لفظ کہ نہ سلام ہو نہ تعظیم کہنے پر قناعت کرے یا مجبور ہو تو آداب کہے یعنی آمیرے پاؤں داب، یاآداب شریعت کہ تو نے اپنے فسق سے ترک کردئے ہیں۔ بجالا۔(فتاوٰی رضویہ :ج۲۲،ص۶۸)

اور بہارشریعت میں ہے:

کفار کو سلام نہ کرے اور وہ سلام کریں تو جواب دے سکتا ہے مگر جواب میں صرف عَلَیْکُمْ کہے اگر ایسی جگہ گزرنا ہو جہاں مسلم و کافر دونوں ہوں تو السَّلامُ عَلَیْکُمْ کہے اور مسلمانوں پر سلام کا ارادہ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے۔ کہ السلام علیٰ من اتّبع الھدٰی کہے (بہارشریعت :ج۳،ح۱۶،ص۴۶۱،۴۶۲)

واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم

  • مفتی محمد سیف اللہ باروی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء