غیرِخداکو سجدہ تعظیمی کرنے کا حکم
غیرِخداکو سجدہ تعظیمی کرنے کا حکم
الجواب بعون الملك الوهاب
غیرِخداکو سجدہ تعظیمی کرنا عوام اور خواص دونوں کے لئے حرام اور گناہ کبیرہ ہے ، احادیث متواترہ اور بیشمار نصوص فقہیہ سےاس کی حرمت ثابت ہے۔
اور قرآن ِمجید کی سورۃ ِبقرہ میں حضرت آدم علیہ السلام کوسجدہ اور سورۃ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کو سجدہ کی آیات میں سجدہ سے مراد ،مشہور سجدہ نہیں بلکہ اس سےمراد صرف سر جھکانا ہے( کہ فرشتوں حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے جھک گئےاور حضرت یوسف علیہ السلام کے والدیں اور بھائی حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے جھک گئے)اور اگر اس سجدہ سے مراد مشہورسجدہ ہو تو پھر یہ سجدہ اللہ تعالیٰ کے لئے تھا اور حضرت آدم اور حضرت یوسف علیہماالسلام کا سامنے ہونا یہ ان کے اعزاز کے لئے تھا ،جیسا کہ کعبہ کی طرف سجدہ کرنا کعبہ کے اعزاز کے لئے ہے،اوراگر یہ سجدہ حضرت آدم اور حضرت یوسف علیہما السلام کوہی تھا تو پھر یہ سجدہ عبادت نہ تھا بلکہ سجدہ تحیت تھا جو شریعت محمدیہ ﷺمیں منسوخ ہو گیا ۔
اورفتاوٰی رضویہ جلد ۱۵ صفحہ ۳۰۲پرامام اہل سنّت امام احمد رضا خان قادری بریلوی علیہ الرحمۃ الرحمٰن نےجوتفسیر عزیزی حوالہ دیا جس میں حضرت غوث اعظم اور سلطان المشائخ حضرت نظام الدیں اولیاء رضی اللہ تعالیٰ عنہماکو مسجودِ خلائق کہا گیا ہے ،وہاں مسجودکا لفظ اپنے حقیقی معنی نہیں، بلکہ مخدوم اورمطاع کے معنی میں ہے اور سجدات کا لفظ بھی خدمات اور اطاعات کےمعنی میں ہے ،جیسا کہ ایک اور سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے مسجود ِ خلائق کی یہی تعویل ذکر کی ہےچنانچہ فتاوٰی رضویہ :ج۲۲،ص۴۹۵،پر ہے "یونہی وہا ں مسجود ِخلائق بمعنی مخدوم و مطاع ۔یہ خود مشہور معنی ہیں اور عام محاورہ میں مستعمل ،مگر عناد کا کیا علاج "۔او رمخدوم اورمطاع کےمعنی میں بھی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نےاسی صفحہ پرجس کا حوالہ سائل نے دیا ہے مسجود کے لفظ کو اشعار وغیرہ میں ذکرنا ،نامناسب لکھا ہے ۔ورنہ شاہ عبد العزیزرحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فتاوٰی عزیزیہ میں یہ قطعی جواب دیا کہ غیرِ خداکو سجدہ تعظیمی حرام ہونے پر اجماع ہےاور خود اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فتاوٰی رضویہ میں غیرِخدا کو سجدہ تعظیمی کرنا حرام لکھاہے۔
چنانچہ فتاوٰی عزیزیہ میں ہے :"اجماع قطعی ست بر تحریم سجدہ "یعنی غیرِ خداکو سجدہ تعظیمی حرام ہونے پر اجماع قائم ہے۔(فتاوٰی عزیزیہ :سجدہ تحیۃ ،مطبع مجتبائی دہلی ،ج۱،ص۱۰۷)
اور فتاوٰی رضویہ میں ہے :"غیر خدا کو سجدہ عبادت شرک ہے سجدہ تعظیمی شرک نہیں مگر حرام ہے گناہ کبیرہ ہے متواتر حدیثیں اور متواتر نصوص فقہیہ سے اس کی حرمت ثابت ہے۔ ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تحریم پر چالیس حدیثیں روایت کیں اور نصوص فقہیہ کی گنتی نہیں، فتاوٰی عزیزیہ میں ہے کہ اس کی حرمت پر اجماع امت ہے"۔(فتاوٰی رضویہ:ج۲۲،ص۱۱۳)
اسی طرح فتاوٰی رضویہ میں ہے : قال ربنا تبارک وتعالی ولایأمرکم ان تتخذوا الملئکۃ والنبیین اربایا ایأمر کم بالکفر بعد اذانتم مسلمون ۱؎۔ (ہمارے رب تبارک وتعالٰی نے فرمایا) نبی کو یہ نہیں پہنچتا کہ تمھیں حکم فرمائے کہ فرشتوں اور پیغمبروں کو رب ٹھہرالو کیا نبی تمھیں کفر کا حکم دے بعد اس کے کہ تم مسلمان ہو۔(۱؎القرآن الکریم ۳/ ۸۰)
عبد بن حمید اپنی مسند میں سیدنا ا مام حسن بصری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی کہ فرمایا : بلغنی ان رجلا قال یارسول اﷲ نسلم علیک لما یسلم بعضنا علی بعض افلا نسجدلک قال لاولکن اکرموا نبیکم واعرفوا الحق لاھلہ فانہ لا ینبغی ان یسجدوا لاحد من دون تعالٰی فانزل اﷲ تعالٰی ماکان لبشر الی قول بعد اذا نتم مسلمون o۱؎ مجھے حدیث پہنچی کہ ایک صحابی نے عرض کی یارسواللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہم حضور کو بھی ایسا ہی سلام کرتے ہیں جیسا کہ آپس میں کیا ہم حضور کو سجدہ نہ کریں ، فرمایا نہ بلکہ اپنے نبی کی تعظیم کرو اور سجدہ خاص حق خدا کا ہے۔اسے اسی کے لئے رکھو اس لئے کہ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ سزاوار نہیں اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت اتاری۔
(۱؎ الدرالمنثور بحوالہ عبد بن حمید الحسن تحت آیۃ ۳/ ۸۰ مکتبہ آیۃ اللہ العظمی قم ایران ۲/ ۴۷)
اکلیل فی استباط التزیل میں اس آیت کے نیچے یہی حدیث اختصارا ذکر کے فرمایا : ففیہ تحریم المسجود لغیر اﷲ تعالٰی (اس میں غیر خدا کے لئے حرمت سجدہ کا بیان ہے ۔ت)
(۲؎ الاکلیل فی استنباط التنزیل تحت آیۃ ۳/ ۸۰ مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ ص۵۴)
تو اس آیہ کریمہ نے غیر خدا کو سجدہ حرام فرمایا ۔(فتاوٰٰ رضویہ :ج۲۲ ،ص۸۱)
اور احادیث مبارکہ میں ہے :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے :
قال جاءت امرأۃ الی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فقالت یارسول اﷲ اخبر نی ماحق الزوج علی الزوجۃ قال لوکان ینبغی لبشر ان یسجد لبشر لامرت المرأۃ ان تسجد لزوجھا اذا دخل علیہالما فضلہ اﷲ علیھا ھذا لفظ البزار ۱؎ والحاکم والبیھقی وعندالترمذی المرفوع منہ بلفظ لوکنت آمرا احدا ان یسجد لاحد لا مرت المرأۃ ان تسجد لزوجھا ۲؎۔
ایک عورت نے بار گاہ رسالت علیہ افضل الصلٰوۃ والتحیۃ میں حاضر ہوکر عرض کی یا رسول اللہ شوہر کا عورت پر کیا حق ہے۔ فرمایا اگر کسی بشر کو لائق ہوتا کہ وہ دوسرے بشر کو سجدہ کرے تومیں عورت کو فرماتا کہ جب شوہرگھر میں آئے اسے سجدہ کرے اس فضیلت کے سبب جو اللہ نے اسے اس پر رکھی ہے یہ الفاظ بزر، حاکم اور بیہقی کے ہیں۔ امام ترمذی کے ہاں مرفوع الفاظ یہ ہیں کہ اگر کسی کو کسی کے لئے سجدہ کاحکم فرماتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں حدیث حسن صحیح ہے۔
(۲؎ جامع الترمذی ابواب الرضاع باب ماجاء فی الزوج علی المرأۃ امین کمپنی دہلی ۱/ ۱۳۸)
حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے : قال کان اھل بیت من الانصار لھم جمل یسنون علیہ وانہ استصعب علیھم (فذکر القصۃ الی قولہ) فلما نظر الجمل الی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم خر ساجدا بین یدیہ فقال لہ اصحابہ یار سول اﷲ ھذہ بہیمۃ لاتعقل تسجد لک ونحن نعقل فنحن احق ان نسجد لک قال لایصلح لبشران یسجد لبشرولو صلح ان یسجد بشر لبشر لامرت المرأۃ ان تسجد لزوجھا من عظم حقہ علیھا ۱؎ وعند النسائی مختصرا۔
یعنی انصار میں ایک گھر کا آبکشی کا اونٹ بگڑ گیا کسی کو پاس نہ آنے دیتا کھیتی اور کھجوریں پیاسی ہوئیں۔ سرکار میں شکایت عرض کی، صحابہ سے ارشاد ہوا چلو باغ میں تشریف فرماہوں۔ اونٹ اس کنارے پر تھا۔ حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف چلے۔ انصارنے عرض کی یا رسول اللہ! وہ بورا نے (باؤلے) کتے کی طرح ہوگیا ہے مبادا حملہ کرے۔ فرمایا ہمیں اس کا اندیشہ نہیں۔ اونٹ حضور کو دیکھ کر چلا اور قریب آکر حضور کے لئے سجدہ میں گرا حضور نے اس کے ماتھے کے بال پکڑ کر کام میں دے دیا وہ بکری کی طرح ہوگیا (آگے وہی ہے کہ )صحابہ نے عرض کی ہم تو ذی عقل ہیں ہم زیادہ مستحق ہیں کہ حضور کو سجدہ کریں۔ فرمایا آدمی کو لائق نہیں کہ کسی بشر کو سجدہ کرے ورنہ میں عورت کو مرد کے سجدے کاحکم فرماتا۔ امام منذری نے کہا اس حدیث کی سند جید ہے اور اس کے راوی مشاہیر ثقہ۔
(مسند احمد بن حنبل عن انس رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳/ ۵۹۔ ۵۸)
ان احادیث ِصحیحہ سے ثابت ہو ا کہ غیر خدا کو سجدہ حرام ہے اورسجدہ تعظیمی جو سابقہ امّتوں میں جائز تھاوہ مذکو رہ آیت اور احادیث سے منسوخ ہو گیا ۔ اور کو ئی حدیث ِضعیف ان احادیث ِصحیحہ کے مقابلے میں حجت نہیں ہے ۔
مزید دلائل کے لئے امام اہل سنّت امام احمد رضا خان قادری بریلوی علیہ الرحمہ کا رسالہ "الزبدۃ الزکیۃ لتحریم سجود التحیۃ (۱۳۳۷ھ)" کا مطالعہ کریں
واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم