انبیاء کرام و اولیاء عظام سے مصیبت کے وقت مدد مانگنا کیساہے

04/09/2018 AZT-26097

انبیاء کرام و اولیاء عظام سے مصیبت کے وقت مدد مانگنا کیساہے


السلام و علیکم کیا انبیاء کرام و اولیاء عظام سے مصیبت کے وقت مدد مانگنا جائز ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دے دیجئے ؟محمد بابر تنولی ،ایبٹ آباد ۔

الجواب بعون الملك الوهاب

 

قرآن وسنت کی تصریحات کے مطابق انبیاءکرام اور اولیاء عظام سےمصیبت کے وقت مدد مانگنا جائز ہے،جبکہ عقید ہ یہ ہو کہ حقیقی اور ذاتی امدادتوصرف  اللہ تعالیٰ ہی فرماتا ہے ،اور یہ نفوس قدسیہ اللہ تعالیٰ کی عطاء سے ہی مددکرتی ہیں ۔اور زندہ  ہونے اور دنیا سے چلے جانے میں کو ئی فرق نہیں یعنی انبیاء اور اولیاء زندہ ہوں یادنیا سے رخصت ہو جائین دونو ں صورتو ں میں ان سے مدد طلب کرنا جائز ہے ۔

چنانچہ قرآن مجید میں ہے ۔

(۱)اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوۡنَ ﴿سورۃ المائدہ ،آیۃ ۵۵﴾

ترجمہ کنز الایمان :تمہارے دوست(مدد گار) نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے  کہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللّٰہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں

(۲)یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللہِ کَمَا قَالَ عِیۡسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللہِ ؕ قَالَ الْحَوَارِیُّوۡنَ نَحْنُ اَنۡصَارُ اللہِ فَاٰمَنَتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنۡۢ بَنِیۡۤ اِسْرٰٓءِیۡلَ وَ کَفَرَتۡ طَّآئِفَۃٌ ۚ فَاَیَّدْنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا عَلٰی عَدُوِّہِمْ فَاَصْبَحُوۡا ظٰہِرِیۡنَ(سورۃ الصف ،آیۃ ۱۴)

ترجمہ کنزالایمان :اے ایمان والو دینِ خدا کے مددگار رہو جیسے عیسٰی بن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کون ہے جو اللہ کی طرف ہو کر میری مدد کریں حواری بولے ہم دینِ خدا کے مددگار ہیں تو بنی اسرائیل سے ایک گروہ ایمان لایا اور ایک گروہ نے کفر کیا  تو ہم نے ایمان والوں کو ان کے دشمنوں پر مدد دی تو غالب ہوگئے ۔

(۳)یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ﴿۱۵۳﴾

ترجمہ کنزالایمان :اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو  بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔

مذکورہ آیات سے معلوم ہو اکہ غیراللہ سے مدد مانگنا جائزہے ،خصوصا پہلی آیت میں واضح طور پر ہے کہ مومنوں کے مدد گار اللہ تعالیٰ ، اسے رسول اور مؤمنیں ہیں، جب اللہ کے رسول اور مؤمنین مسلمانوں کے مدد گار  ہیں تو ان سے مدد مانگنا بھی جائز ہے شرک نہیں

اور احادیث مبارکہ میں ہے:

چنانچہ اعلیٰ حضرت اس طرح کے ایک مسئلہ کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں ۔

 صحیح بخاری وصحیح مسلم وسنن نسائی میں ہے چند قبائل عرب نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے استعانت کی، حضور والا نے مدد عطا فرمائی۔ عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ ان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اتاہ رعل وذکوان وعصیۃ وبنولحیان فزعموا انہم قد اسلموا واستمدوہ علی قومہم فامدہم النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۱؎ الحدیث۔ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس رعل، ذکوان، عصیہ اور بنولحیان قبائل کے لوگ آئے اور انھوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ وہ اسلام قبول کرچکے ہیں اور اپنی قوم کے لئے آپ سے مدد طلب کی ، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کی مدد کی۔ الحدیث۔

(۱؎ صحیح البخاری     کتاب الجہاد     باب العون بالمدد     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۴۳۱)

 صحیح مسلم وابوداؤد وابن ماجہ ومعجم کبیرطبرانی میں ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے حضور پر نور سید العالمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: مانگ کیا مانگتاہے کہ ہم تجھے عطافرمائیں، عرض کی میں حضور سے سوال کرتاہوں کہ جنت میں حضور کی رفاقت عطا ہو، فرمایا بھلا اور کچھ، عرض کی بس میری مراد تو یہی ہے، فرمایا تو میری اعانت کر اپنے نفس پر کثرت سجود سے، قال کنت ابیت مع رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فاتیتہ بوضوئہ وحاجتہ فقال لی سل، ولفظ الطبرانی فقال یوما یاربیعۃ سلنی فاعطیک رجعنا الی لفظ مسلم فقال فقلت اسألک مرافقتک فی الجنۃ، قال اوغیرذٰلک ۔ قلت ہو ذاک، قال فاعنی علی نفسک بکثرۃ السجود ۲؎۔

 

الحمدللہ یہ جلیل ونفیس حدیث صحیح اپنے ہر ہر فقرہ سے وہابیت کش ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اَعِنِّیْ فرمایا کہ میری اعانت کر، اسی کو استعانت کہتے ہیں، یہ درکنار حضور والا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا مطلق طور پر سَلْ فرماناکہ مانگ کیا مانگتاہے، جان وہابیت پر کیسا پہاڑ ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ حضو رہر قسم کی حاجت روا فرماسکتے ہیں، دنیا وآخرت کی سب مرادیں حضور کے اختیار میں ہیں جب تو بلاتقیید وتخصیص فرمایا: مانگ کیا مانگتاہے۔

(۲؎ صحیح مسلم     کتاب الصلٰوۃ باب فضل السجود و الحث علیہ    قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱ /۱۹۳)

(المعجم الکبیر     عن ربیعہ بن کعب حدیث ۴۵۷۶     المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۵ /۵۸)

 

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ القوی شرح مشکوٰۃ شریف میں اس حدیث کے نیچے فرماتے ہیں: ازاطلاق سوال کہ فرمود سل بخواہ وتخصیص نکرد بمطلوبی خاص معلوم میشود کہ کارہمہ بدست ہمت و کرامت اوست صلی تعالٰی علیہ وسلم ہر چہ خواہد وہر کراخواہد باذن پروردگار خود بدہد ؎

فان من جودک الدنیا وضرتہا ومن علومک علم اللوح والقلم ۱؎۔ مطلق سوال کے متعلق فرمایا ''سوال کر'' جس میں کسی مطلوب کی تخصیص نہ فرمائی، تومعلوم ہوا کہ تمام اختیارات آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے دست کرامت میں ہیں، جو چاہیں جس کو چاہیں اللہ تعالٰی کے اذن سے عطا کریں، آپ کی عطا کا ایک حصہ دنیا وآخرت ہے اور آپ کے علوم کا ایک حصہ لوح وقلم کا علم۔

 (۱؎ اشعۃ اللمعات     کتاب الصلٰوۃ باب السجود وفضلہ فصل اول     مکتبہ نبویہ رضویہ سکھر    ۱ /۳۹۶)

علامہ علی قاری علیہ رحمۃ الباری مرقاۃ میں فرماتے ہیں: یوخذ من اطلاق صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الامربالسؤال ان اﷲ مکنہ من اعطاء کل مااراد من خزائن الحق ۲؎۔ یعنی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جو مانگنے کا حکم مطلق دیا اس سے مستفاد ہوتاہے کہ اللہ عزوجل نے حضور کوقدرت بخشی ہے کہ اللہ تعالٰی کے خزانوں میں سے جو کچھ چاہیں عطافرمائیں۔

(۲؎مرقاۃ المفاتیح    کتاب الصلٰوۃ          مکتبۃ حبیبہ کوئٹہ    ۲ /۶۱۵)

پھر لکھا : وذکر ابن سبع فی خصائصہ وغیرہ ان اﷲ تعالٰی اقطعہ ارض الجنۃ یعطی منہا ماشاء لمن یشاء ۳؎۔ یعنی امام ابن سبع وغیرہ علماء نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خصائص کریمہ میں ذکر کیا ہے کہ جنت کی زمین اللہ عزوجل نے حضور کی جاگیر کردی ہے کہ اس میں سے جو چاہیں جسے چاہیں بخش دیں۔ (ت)

(۳؎ مرقاۃ المفاتیح    کتاب الصلٰوۃ          مکتبۃ حبیبہ کوئٹہ    ۲ /۶۱۵)

اما م اجل سیدی ابن حجر مکی قدس سرہ، الملکی ''جو ہر منظم'' میں فرماتے ہیں : انہ صلی تعالٰی علیہ وسلم خلیفۃ اﷲ الذی جعل خزائن کرمہ وموائد نعمہ طوع یدیہ وتحت ارادتہ یعطی منہا من یشاء ویمنع من یشاء ۱؎۔ بے شک نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اللہ عزوجل کے خلیفہ ہیں، اللہ تعالٰی نے اپنے کرم کے خزانے اور اپنی نعمتوں کے خوان حضور کے دست قدرت کے فرمانبردار اور حضور کے زیر حکم وارادہ واختیار کردئے ہیں کہ جسے چاہیں عطا فرماتے ہیں اور جسے چاہیں نہیں دیتے۔ (ت)

(۱؎ الجوہر المنظم         الفصل السادس     المطبعۃ الخیرۃ مصر    ص۴۲)

چودہ حدیثوں میں ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اطلبوا الخیر عند حسان الوجوہ ۲؎۔ خیر طلب کرونیک رویوں کے پاس۔

 

 (التاریخ الکبیر         حدیث ۴۶۸         دارالباز مکۃ المکرمۃ    ۱/ ۱۵۷)

(موسوعہ رسائل ابن ابی الدنیا     قضاء الحوائج    حدیث ۵۱     مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ بیروت    ۲ /۴۹)

(کشف الخفاء         حدیث ۳۹۴         دارالکتب العلمیہ بیروت        ۱ /۱۲۲)

 

وفی لفظ (دوسرے الفاظ میں) : اطلبوا الخیر والحوائج من حسان الوجوہ ۱؎۔ نیکی اور حاجتیں خوبصورتوں سے مانگو۔

 

 (۱؎ المعجم الکبیر     عن ابن عباسس حدیث ۱۱۱۱۰    المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۱۱ /۸۱)

 

وفی لفظ (بالفاظ دیگر): اذا ابتغیتم المعروف فاطلبوہ عند حسان الوجوہ ۲؎۔ جب نیکی چاہو تو خوبرویوں کے پاس طلب کرو،

 

 (۲؎ الکامل لابن عدی     ترجمہ یعلی بن ابی الاشدق الخ     دارالفکر بیروت    ۷ /۲۷۴۲)

(کنز العمال     حدیث ۱۶۷۹۴    مؤسسۃ الرسالۃ بیروت        ۶/ ۵۱۶)

 

وفی لفظ (دوسرے لفظو ں میں): اذا طلبتم الحاجات فاطلبوہا عند حسان الوجوہ ۳؎۔ جب حاجتیں طلب کرو خوش چہروں کے پاس طلب کرو۔

 

(۳؎ اتحاف السادۃ     کتاب الصبر والشکر بیاں حقیقۃ النعمۃ الخ     دارالفکر بیروت    ۹ /۹۱)

 

وفی لفظ بزیادۃ  (اضافہ کے ساتھ دیگر الفاظ میں)  : فان قضٰی حاجتک قضاھا بوجہ طلق و ان ردک ردک بوجہ طلق، اخرجہ الامام البخاری فی التاریخ ۴؎ وابوبکر بن ابی الدنیا فی قضاء ۵؎ الحوائج وابویعلی فی مسندہ ۶؎ والطبرانی فی الکبیر والعقیلی۷؎ وابن عدی۸؎ والبیہقی فی شعب الایمان۱؎ وابن عساکر۲؎ ۔

 

خوش جمال آدمی اگر تیری حاجت روا کرے گا تو بکشادہ روئی اور تجھے پھیرے گا تو بکشادہ پیشانی۔ (اسے امام بخاری نے تاریخ میں، ابوبکر بن ابی الدنیا نے قضاء الحوائج میں ابویعلٰی نے اپنی مسند میں طبرانی نے کبیر میں۔ عقیلی نے عدی نے بیہقی نے شعب الایمان میں اور ابن عساکر نے روایت کیا ۔ ت)

 

 (۴؎ التاریخ الکبیر     حدیث ۴۶۸     دارالباز مکۃ المکرمۃ    ۱ /۱۵۷)

(۵؎ موسوعہ رسائل ابن ابی الدنیا قضاء الحوائج حدیث ۵۴     موسسۃ الکتب الثقافیۃ بیروت    ۲ /۵۱)

(۶؎ مسند ابی یعلی عن عائشہ رضی اللہ عنہا حدیث ۴۷۴۰     موسسۃ علوم القرآن بیروت    ۴ /۳۸۶)

(۷؎ الضعفاء الکبیر     حدیث ۵۹۹         دارالکتب العلمیہ بیروت    ۲ /۱۲۱)

(۸؎ الکامل لابن عدی     ترجمہ حکم بن عبداللہ بن سعد     دارالفکر بیروت    ۲ /۶۲۲)

(۱؎ شعب الایمان  حدیث ۳۵۴۱و ۳۵۴۲     دارالکتب العلمیہ بیروت     ۳ /۲۷۸)

(۲؎ کنز العمال    بحوالہ ابن عساکر عن عائشہ حدیث ۱۶۷۹۳    موسسۃ الرسالہ بیروت    ۶ /۵۱۶)

مذکورہ احادیث سے بھی معلوم ہو اکہ انبیاء کرام و اولیاء عظام سے مصیبت کے وقت مدد مانگنا جائز ہے

واللہ تعالیٰ ورسولہ اعلم

 

(فتاوٰی رضویہ :ج۲۳،ص۵۲،۵۳)

 

 

 

  • مفتی محمد سیف اللہ باروی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء