حضور علیہ السلام کا اسم گرامی سن کر انگوٹھے چومنا کیساہے
حضور علیہ السلام کا اسم گرامی سن کر انگوٹھے چومنا کیساہے
الجواب بعون الملك الوهاب
الجواب بعون الوھّاب اللھمّ ھدایۃ الحق والصواب
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسمِ گرامی بوقتِ اذان و اقامت یا اس کے علاوہ دیگر مواقع پر سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھناصرف جائز ہی نہیں بلکہ ایک مستحب عمل ہے ۔یہی ہمارا مذہب ہےاوراس پراحایث مبارکہ اوراقوال فقہاءوصلحاء میں کثیر دلائل موجود ہیں۔ ہاں بہتان تراشی کا کو علاج نہیں کہ بڑی دلیری سے کہہ دیا جاتا ہے کہ اہلسنت وجماعت انگوٹھے چومنا فرض وواجب سمجھتے ہیں۔یہ سفید جھوٹ اور افتراء ہے ۔ ہمار ے نزدیک صرف یہ ایک مبارک ،مستحب اور محبوب عمل ہے ،فرض یا واجب نہیں ۔
چنانچہ احادیث مبارکہ میں ہے ۔
(۱)مسند الفردوس از دیلمی میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کےحوالے سےروایت ہے:
أنّه لمّا سمع قول المؤذّن: أشھد أنّ محمّدا رسول اللہ، قال ھذا، وقبّل باطن الأنملتین السبّابتین، ومسح عینیه، فقال صلّی اللہ علیہ وسلّم: من فعل مثل مافعل خلیلی، فقد حلّت علیہ شفاعتی
”جب آپ رضی اللہ عنہ نے مؤذن کو أشھد أنّ محمّدا رسول اللہ کہتے سنا تو یہی الفاظ کہے اور دونوں انگشتِ شہادت کے پورے جانبِ زیریں سے چوم کر آنکھوں سے لگائے۔ اس پر نبیٔ اکرم ﷺ نے فرمایا، جو ایسا کرے، جیسا کہ میرے پیارے نے کیا ہے، اس کے لیے میری شفاعت حلال ہوجائے۔“
(المقاصد الحسنة للسخاوي: ص 384)
(۲)"قال الطاؤس انہ سمع من الشمس محمد بن ابی نصر البخاری حدیث من قبل عند سماعہ من المؤذن کلمۃ الشھادۃ ظفری ابھامیہ ومسھا علیٰ عینیہ وقال عند المس ۔ اللھم احفظ حدقتی ونورھما ببرکۃ حدقتی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ونورھما لم یعم"۔ (المقاصد الحسنہ للسخاوي: ص385 )
یعنی ،طاؤس فرماتے ہیں انہوں نے خواجہ شمس الدین ابی نصر البخاری سے یہ حدیث سنی کہ جو شخص مؤذن سے کلمہ شہادت سن کر انگوٹھوں کے ناخن چومے اور آنکھوں سے لگائے اور یہ دعا پڑھے (اللھم احفظ حدقتی الخ) تو وہ اندھا نہ ہوگا۔
(۳)"عن الخضر علیہ السلام انہ قال حین یسمع المؤذن یقول اشھدان محمداً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرحباً بحبیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ثم یقبل ابھامیہ ویجعلھما علیٰ عینیہ لم یرمد ۔ (عقائد حسنہ)"۔
یعنی،حضرت خضر علیہ السلام سے مروی ہے کہ جس نے مؤذن کے قول (اشھد ان محمدا! الخ) سن کر مرحبا بحبیبی الخ کہہ کر انگوٹھوں کو چوما اور ان کو آنکھوں پر پھیرا تو اس کی آنکھیں کبھی نہیں دکھیں گی۔
(۴)۔ عن الفقیہ ابی الحسن علی بن محمد من قال حین یسمع المؤزن یقول اشھد ان محمدا رسول اللہ مرحبا بحبیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ویقبل ابھامیہ ویجھلھما علی عینیہ لم یعم ولم یرمد
(کشف الخفاء، الباب الجز ۲، الجز ۲، ص ۲۰۷، و مقاصد حسنه ص ۳۸۴)
یعنی حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جو شخص اشھد ان محمداً الخ سن کر مرحبا الخ کہتا ہے اور انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر پھیرتا ہے تو وہ ہمیشہ نہ تو نابینا ہوگا اور نہ ہی اس کی آنکھیں دکھیں گی۔
(۵)"قال علیہ الصلوٰۃ والسلام من سمع اسمی فی الاذان فقبل ظفری ابھامیہ ومسح علی عینیہ لم یعم ابدا"۔ (مضمرات)
یعنی ،جس نے اذان میں میرا نام سن کر اپنےانگوٹھوں کوچوما اور آنکھوں سے لگایا تو وہ کبھی اندھا نہیں ہوگا۔
(۶)" قال علیہ السلام من سمع اسمی ووضع ابھامیہ علیٰ عینیہ فانا طالبہ فی صفوف القیامۃ وقائدہ الی الجنۃ "(صلوٰۃ مسعودی)۔
یعنی ،جس نے میرا نام سن کر انگوٹھوں کو آنکھوں سے لگایا تو میں اس کو قیامت میں صفوں سے تلاش کرکے بہشت میں لے جاؤں گا۔
اورمحقق کامل، مدقق فاضل،مفسرکبیر حضرت علامہ اسماعیل حقی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی شہرہ آفاق تفسیر روح البیان میں لکھتے ہیں:
"ان ادم علیہ السلام اشتاق الیٰ لقاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم حین کان فی الجنۃ فاوحی اللہ تعالیٰ الیہ ھو من صلبک ویظھر فی اٰخر الزمان فسال بقاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم حین کان فی الجنۃ فاوحی اللہ الیہ فجعل اللہ النور المحمدی فی اصبعہ المسبحۃ من یدہ الیمنی فسبح ذلک النور فلذالک سمیت تلک الاسبع مسبحۃ کما فی الروض الفائق او اظھر اللہ تعالی جمال حبیبہ فی صفاء ظفری ابھامیہ مثل المراۃ فقیل ادم ظفری ابھامیہ ومسح علیٰ عینیہ فصار اصلاً لذریتہ فلما اخبر جبریل النبی صلی اللہ علیہ وسلم بھذہ القصۃ قال علیہ السلام من سمع اسمی فی الاذان فقبل ظفری ابھامیہ ومسح علی عینیہ لم یعم ابدا "۔(تفسیر روح البیان:ج 4،ص 649)
"یعنی جب حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کا اشتیاق ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ وہ تمہارے صلب سے آخر زمانہ میں ظہور فرمائیں گے تو حضرت آدم علیہ السلام نے آپ کی ملاقات کا سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے داہنے ہاتھے کے کلمے کی انگلی میں نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم چمکایا تو اس نور نے اللہ کی تسبیح پڑھی اسی واسطے اس انگلی کا نام کلمے کی انگلی ہوا۔ جیسا کہ روض الفائق میں ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال کو حضرت آدم علیہ السلام کے دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں میں مثل آئینہ کے ظاہر فرمایا تو حضرت آدم نے اپنے انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں پر پھیرا۔ پس یہ سنت ان کی اولاد میں جاری ہوئی پھر جبرئیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی تو آپ نے فرمایا، جو شخص آذان میں میرا نام سن کر اور اپنے انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں سے لگائے تو وہ کبھی اندھا نہ ہوگا"۔
اوراسی تفسیر روح البیان میں ہے :
"در محیط آوردہ کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بمسجد درآمد ونزدیک ستون بنشت وصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ در برابر آنحضرت نشستہ بود بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ برخاست باذان اشتغال فرمود چوں گفت اشھد ان محمد رسول اللہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ا خود رابرھردوچشم خودنھا دہ گفت قرۃ عینی بک یارسول اللہ چوں بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ فارغ شد حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمودہ کہ یا ابابکر ھر کہ بکند ایں چنیں کہ تو کردی خدائے بیامرزد گناھاں جدید اوراقدیم۔ اگر بعمد بودہ باشد اگر بخطا"۔(تفسیر روح البیان:ج 4،ص 649)
یعنی محیط آیامیں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور ایک ستون کے قریب بیٹھ گئے ۔ اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آپ کے برابر بیٹھے تھے۔ اتنے میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر آذان دینا شروع کی جب انہوں نے اشھد ان محمد رسول اللہ کہا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں کو اپنی دونوں آنکھوں پر رکھا اور کہا (قرۃ عینی بک یارسول اللہ)۔ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان دے چکے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر،جو شخص ایسا کرے جیسا کہ تم نے کیا ہے خدا تعالیٰ اس کے گناہوں کو بخش دے گا۔
فقیہ اعظم حضرت علامہ سید محمد امین ابن عابدین اپنی شہرہ آفاق کتاب رد المحتار علی الدر المختار میں لکھتے ہیں :
یستحب ان یقال عند سماع الاولی من الشھادۃ ؛ صلی اللہ علیک یارسول اللہ، وعند الثانیۃ منھا؛ قرت عینی بک یارسول اللہ ، ثم یقول؛ اللھم متعنی بالسمع والبصر بدع وضع ظفری ابابھامین لی العینین فانہ علیہ السلام یکون قائدًا لہ الی الجنۃ
(ردالمختار علی الدر المختار ، کتاب الصلوٰۃ باب فائدۃ التسلیم بعد الاذان،ج۱ص۳۹۸، دارالفکر بيروت)
یعنی جان لو کہ بے شک اذان کی پہلی شہادت کے سننے پر صلی اللہ علیک یارسول اللہ اور دوسری شہادت کے سننے پر قرۃ عینی بک یارسول اللہ کہنا مستحب ہے۔پھر اپنے انگوٹھوں کے ناخن (چوم کر) اپنی آنکھوں پر رکھے اور کہے اللھم متعنی بالسمع والبصر، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرنے والے کو اپنے پیچھے پیچھے جنت میں لے جائیں گے۔
اور اسی رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:
فی قھستانی ونحوہ فی الفتاوی الصوفیۃ وفی کتاب الفردوس (من قبل ظفری ابھامہ عند سماع اشھد ان محمدًا رسول اللہ فی الآذان انا فائدہ مدخلہ فی صفوف الجنۃ) وتمامہ فی حواشی البحر للرملی
(ردالمختار علی الدر المختار ، کتاب الصلوٰۃ باب فائدۃ التسلیم بعد الاذان،ج۱ص۳۹۸، دارالفکر بيروت)
قہستانی اور اسی کی مثل فتاویٰ صوفیہ میں ، اور کتاب الفردوس میں ہے کہ جو شخص اذان میں اشھدان محمدرسول اللہ سن کر اپنے انگوٹھوں کے ناخنوں کو چومے (اس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے) کہ میں اس کا قائد بنوں گا اور اس کو جنت کی صفوں میں داخل کروں گا اور اس کی پوری بحث بحرالرقائق کے حواشی رملی میں ہے۔
رئیس الفقہاء الحنفیہ حضرت علامہ سید احمد بن محمد بن اسماعیل طحطاوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ شرح مراقی الفلاح میں یہی عبارت اور دیلمی کی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ والی مرفوع حدیث نقل کرکے فرماتے ہیں:
"وکذاروی عن الخضر علیہ السلام وبمثلہ یعمل فی الفضائل"۔
(حاشیہ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح ص ۲۰۶ کتاب الصلوٰۃ ، باب الاذان، دارالکتب العلمیہ بیروت)
یعنی اور اسی طرح حضرت خضر علیہ السلام سے بھی روایت کیا گیا ہے اور فضائلِ اعمال میں ان احادیث پر عمل کیا جاتا ہے۔
اورامام سخاوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "المقاصد الحسنہ "میں لکھتے ہیں :
’’مؤذن سے اذان میں اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اﷲِ سن کر انگشتانِ شہادت کے پورے جانبِ باطن سے چوم کر آنکھوں پر ملنا اور یہ پڑھنا چاہیے : اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَرَسُوْلُه، رَضِيْتُ بِاﷲِ رَبًّا وَبِالاِسْلَامِ دِيْنًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا (میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، اور میں اللہ کے رب ہونے پر، اِسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہوں)۔‘‘
دیلمی نے اس حدیث کو الفردوس بماثور الخطاب میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جب انہوں نے مؤذن کو اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اﷲِ کہتے ہوئے سنا تو یہ دعا پڑھی، اور دونوں انگشتانِ شہادت کے پوروں کو چوم کر آنکھوں سے ملا۔ یہ دیکھ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’جس نے میرے پیارے دوست کی طرح عمل کیا، اس پر میری شفاعت حلال ہوگئی۔‘‘
)المقاصد الحسنہ:ج1،ص384: رقم : 1021)
لہذا خلاصہ کلام یہ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسمِ گرامی بوقتِ اذان و اقامت یا اس کے علاوہ دیگر مواقع پر سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ ایک مستحب عمل ہے، ۔یہی ہمارا مذہب ہےاور اس پراحایث واقوال فقہاءوصلحاء میں کثیر دلائل موجود ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم