"امام حسین کی محبت میں مجھے جہنم ملے تو قبول ہے" کہنا کیسا؟
"امام حسین کی محبت میں مجھے جہنم ملے تو قبول ہے" کہنا کیسا؟
السلام علیکم مفتی صاحب! کیا یہ قول درست ہے جو اکثر لوگوں سے سننے میں ملتا ہے؟ " امام حسین کی محبت میں مجھے جہنم ملے تو ٹھیک ہے"۔ قمر سعید، ممبئی انڈیا۔
الجواب بعون الملک الوہاب
یہ قول درست ہے۔ یہ قضیہ شرطیہ ہے۔ قضیہ شرطیہ کے لئے صدق طرفین لازم نہیں۔ اس کی مثال سیدنا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ ارشاد ہے: لو کان رفضاً حب آلِ محمد فلیشهد الثقلان أنا رافضيٌ. ترجمہ: اگر آل محمد کی محبت میں رفض ہے تو جن و انس گواہی دیں کہ میں رافضی ہوں۔ یا جیسے عرفاء نے کہا :لو کانت الجنة بدون جماله فیا ویلاه ولو کان النار بجماله فیا شوقاه. ترجمہ: اگر جنت میں اللہ کا دیدار نصیب نہ ہو تو ہائے ہائے،اور اگر جہنم میں اس کا دیدار نصیب ہو تو بصد شوق قبول ۔واللہ تعالیٰ ورسولہ اعلم بالصواب ۔ [فتاویٰ شارح بخاری، جلد دوم، صفحہ ، ۴۸، مکتبہ برکات المدینہ کراچی]۔