بغیر مانگے پیسے ملے ، تواس کا لینا کیسا؟
بغیر مانگے پیسے ملے ، تواس کا لینا کیسا؟
زید اپنا کام کروانے کے لئے شہباز کے پاس جاتا ہے اور دونوں کے آپس میں کام کرنے کے معاملات طے پا جاتے ہیں۔ پھر شہباز وہ کام احمد کو دے دیتا ہے۔ اور کام کرنے کے بعد شہباز مجھے اپنی مرضی سے پیسے دے دیتا ہے۔ کیا یہ پیسے میرے لئے جائز ہیں یا نہیں؟ جب کے میں کام کرنے کے پیسے طالب بھی نہیں کرتا۔ اگر ناجائز ہیں تو میں ان پیسوں کو کسی مدرسے میں (جس آدمی نے مجھے پیسے دئیے) اس کے نام سے ڈال سکتا ہوں؟ (محمد احمد رضا قادری رضوی ، لاہور)
الجواب بعون الملك الوهاب
بلا شبہ اس کا لینا جائز حلال وطیب ہے جبکہ حرام مال نہ دے رہاہو۔ سرکارِ دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ وَتَصَدَّقْ بِهِ فَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ (صحیح بخاری، جلد 22،صفحہ 84، رقم الحدیث:6630،مکتبہ موقع الإسلام)ترجمہ:جب تیرے پاس یہ مال آئے جبکہ تواس کے انتظارمیں نہ ہواور نہ تواس کے لئے سائل بناتو تو چاہے تو اسے لے لے اور کھالے یا چاہے توصدقہ کردے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے: قال بعضهم: يجوز ما لم يعلم أنه يعطيه من حرام (فتاوی عالمگیری، جلد5، صفحہ342، ناشر دار الفکر) بعض علماء نے فرمایا جب تک حرام سے ادائیگی کا علم نہ ہواس وقت تک لے سکتا ہے۔
واللہ تعالیٰ ورسولہ الاعلی عزوجل وﷺاعلم