عقائد کا اہم مسئلہ
عقائد کا اہم مسئلہ
اسلام علیکم، کیا فرماتے ہیں علماء دین متین اس بارے میں کہ فی زمانہ ہر بدمذہب شخص میلاد شریف، گیارہوں شریف، پیری مریدی، تعویزوغیرہ کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ کیا یہ صحابہ کرام نے کیا یا رسول ﷺ نے کہا وغیرہ۔ ان کی اس بات کی کس طرح اصلاح کرنےچاہئیے۔ رہنمائی فرمایئں۔ فقط (محمد فرخ شان القادری، کراچی)
الجواب بعون الملك الوهاب
الجواب بعون الوھّاب اللھمّ ھدایۃ الحق والصواب
(1)میلاد شریف خود نبی اکرم ﷺاور صحابہ کرام ضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نے کیاہے ۔
حضر ت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔
"أن رسول الله صلى الله عليه و سلم سئل عن صوم الإثنين قال هو يوم ولدت فيه ويوم أنزل علي فيه"
ترجمہ:بیشک رسول اللہ ﷺسےپیر کے روضہ کے بارے میں پوچھا گیا (کہ آپ پیر کا روضہ کیو ں رکھتے ہیں)تو آپﷺ نے ارشاد فرمایاو ہ ایسا دن ہے جس میں پیدا ہو ااور اسی دن میں مجھ پر وہی نازل ہوئی ۔
(صحیح مسلم ،ج ۲،ص۸۱۸)
اس حدیث مبارکہ سےمعلوم ہوا کہ آپﷺنے پیر کے دن کا روضہ رکھ کراپنی ولادت کا دن منایا اور اللہ تعالیٰ کا شکر اداکیا۔ اسی کو میلاد کہتےہیں ۔
اسی طرح علا مہ یوسف نبہانی رحمۃ اللہ علیہ جواز میلاد سے متعلق لکھتے ہیں
وھو ما اخرجہ البیھی عن انس رضی اللہ عنہ ان النبی ﷺعق عن نفسہ بعد النبوۃ مع انہ قد ورد ان جدہ عبد المظلب عق عنہ فی سابع ولادتہ والعقیقۃ لا تعاد مرۃ ثانیۃ فیحمل ذالک علیٰ ان الذی فعلہ النبی ﷺ ماظھارا للشکر علی ایجاد اللہ ایاہ رحمۃ للعالمین
امام بیہھقی کی روایت سے یہ حدیث موجود ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے اعلان نبوت کے بعد اپنا عقیقہ فرمایا حالانکہ آپ کے علم میں موجود تھا کہ آپکے دادا عبد المطلب نے ولادت کے بعد ساتویں دن آپ کا عقیقہ کیا تھا اور یہ بات بھی شریعت میں موجود ہے کہ عقیقہ زندگی میں ایک مرتبہ ہو تاہے اس کا اعادہ نہیں ہے لہذا آپ کا یہ عمل اظہا ر تشکر کیلئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خاص آپکو رحمۃ للعالمین بنایا ہے ۔ (حجۃ اللہ علی العالمین:ص۲۳۷)
بیہقی کی اس روایت پر آپ غور کر یں تو میلاد کی اصل خود فعل رسول ﷺ سے ثابت ہو جائیگی کیو نکہ ہمارے یہاں بھی سال بہ سال محفل میلاد کا انعقاد اظہار تشکر کیلئے ہو تا ہے ۔فرق اتنا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے رحمۃ للعالمین بنائے جانے پر اظہا ر تشکر فرمایا اور ہم رحمۃ للعالمین نبی ﷺ کے امتی ہو نے پر اظہار تشکر کرتے ہیں ۔
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہو ا کہ میلاد شریف خود نبی اکرم ﷺ نے کیا ۔
اسی طرح حدیث مبارک میں ہے
عن أبي سعيد الخدري قال قال معاوية رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم خرج على حلقة يعني من أصحابه فقال ما أجلسكم قالوا جلسنا ندعو الله ونحمده على ما هدانا لدينه ومن علينا بك قال آلله ما أجلسكم إلا ذلك قالوا آلله ما أجلسنا إلا ذلك قال أما أني لم أستحلفكم تهمة لكم وإنما أتاني جبريل عليه السلام فأخبرني أن الله عز و جل يباهى بكم الملائك “(سنن نسائی :ج۸،ص۲۴۹)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ حضرت امیر معاویۃ رضی اللہ عنہ فرمایا : بیشک رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کے حلقہ پر تشریف لائے اور پو چھا کیوں بیٹھے ہو عر ض کی :ہم بیٹھےہیں اللہ تعالیٰ سے دعا کر نے کیلئے اور اس کا شکر ادا کر نے کیلئے کہ اس نے اپنے دین کی راہنمائی فرمائیِ اور اس لئے بھی کہ آپ کو مبعو ث کر کے ہم پر احسان کیا ۔آپ نے فرمایا :کیا قسم کھاؤگے کہ واقعی اس مقصد کیلئے یہاں بیٹھے ہو ۔ صحابہ نے قسم کھائی کہ اسی مقصد کیلئے یہاں بیٹھےہیں ۔یہ سن کر آپ نے فرما یا ۔میں نے تمہیں قسم کھانے کیلئے تہمت کی وجہ سے نہیں کہا بلکہ اس لئے کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھ سے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ تم لو گو ں سے فر شتوں کے سامنے فخر کرتا ہے ۔
اس حدیث مبارک پر غور کریں تو آپ پر یہ عقید ہ کھل جائیگا کہ محفل میلاد کی اصل پیش کردہ حدیث میں مومود ہے ۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین میلاد النبی ﷺکی محفل کا انعقاد کیا۔
(2)پیری مریدی (یعنی بیعت )بھی قرآن وحدیث ،حضور علیہ الصلاۃ والسلام اور صحابہ کرام رضون اللہ تعالیٰ علیہ اجمعین کے عمل سے ثابت ہے ۔
چناچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَکَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰۤی اَنۡ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللہِ شَیْـًٔا وَّ لَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیۡنَ وَ لَا یَقْتُلْنَ اَوْلٰدَہُنَّ وَ لَا یَاۡتِیۡنَ بِبُہۡتٰنٍ یَّفْتَرِیۡنَہٗ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِنَّ وَ اَرْجُلِہِنَّ وَ لَا یَعْصِیۡنَکَ فِیۡ مَعْرُوۡفٍ فَبَایِعْہُنَّ وَ اسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللہَ ؕ اِنَّ اللہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲﴾
اے نبی جب تمہارے حضور مسلمان عورتیں حاضر ہوں اس پر بیعت کرنے کو کہ اللّٰہ کا کچھ شریک نہ ٹھہرائیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی۔ اور نہ وہ بہتان لائیں گی جسے اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان یعنی موضعِ ولادت میں اٹھائیں۔ اور کسی نیک بات میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی۔ تو ان سے بیعت لو اور اللّٰہ سے ان کی مغفرت چاہو ۔ بیشک اللّٰہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللہَ ؕ یَدُ اللہِ فَوْقَ اَیۡدِیۡہِمْ ۚ فَمَنۡ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنۡکُثُ عَلٰی نَفْسِہٖ ۚ وَ مَنْ اَوْفٰی بِمَا عٰہَدَ عَلَیۡہُ اللہَ فَسَیُؤْتِیۡہِ اَجْرًا عَظِیۡمًا ﴿۱۰﴾٪
وہ جو تمہاری بیعت کرتے ہیں وہ تو اللّٰہ ہی سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللّٰہ کا ہاتھ ہے تو جس نے عہد توڑا اس نے اپنے بڑے عہد کو توڑا اور جس نے پورا کیا وہ عہد جو اس نے اللّٰہ سے کیا تھا تو بہت جلد اللّٰہ اسے بڑا ثواب دے گا۔
لَقَدْ رَضِیَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیۡنَ اِذْ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمْ فَاَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ عَلَیۡہِمْ وَ اَثٰبَہُمْ فَتْحًا قَرِیۡبًا ﴿ۙ۱۸﴾
بیشک اللّٰہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللّٰہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے تو ان پر اطمینان اتارا اور انہیں جلد آنے والی فتح کا انعام دیا ۔
مذکورہ آیات سےثابت ہو ا کہ بیعت(پیری مریدی )قرآن مجید سے ثابت ہے ۔
اور حدیث مبارک میں ہے۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَايِعُ النِّسَاءَ بِالْكَلَامِ بِهَذِهِ الْآيَةِ { لَا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا } قَالَتْ وَمَا مَسَّتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَ امْرَأَةٍ إِلَّا امْرَأَةً يَمْلِكُهَا
(بخاری:جزء۹، ص۸۰)
ام المئومنین حضرت عائشہصدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ حضوراکرم ﷺ یہ آیت مبارکہ (لَا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا)پڑھ کر عورتو ں سے زبانی بیعت لیتے تھے ۔نبی کریم ﷺؑکےہاتھو ں نے کبھی کسی عورت کے ہا تھ کو مس نہ کیا ۔سوائے اپنی مملوکہ کے ۔
عن عبادة بن الصامت قال بايعنا رسول الله صلى الله عليه و سلم على السمع والطاعة في اليسر والعسر والمنشط والمكره وأن لا ننازع الأمر أهله وأن نقوم بالحق حيث كنا لا نخاف لومه لائم
(سنن نسائی :جزء۷،ص۱۳۷)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول ﷺ کی بیعت کی ان باتوں پر کہ خوشی ہو غم ،تنگ دستی ہو یا فراخی ،ہم آزاد ہوں یا مجبور، ہم ہمیشہ آپ ﷺ کے ارشادات کو سنیں گے اور عمل کریں گے نیز ہم کسی بھی شخص کو اس کے منصب سے نہیں ہٹائیں گے جو اس منصب کا اہل ہو اور حق کو قائم کریں گے جیسے وہ ہے اور ہم کسی ملامت کرنے ولالے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔
مذکورہ احادیث سے ثابت ہوا کہ بیعت(پیری مریدی) احادیث اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے عمل سے ثابت ہے ۔
اس طرح کے ایک سوال کےجواب میں اعلیٰ حضرت امام اہل سنت اما م احمد رضاخان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتےہیں۔
صدیق اکبررضی اﷲ تعالٰی عنہ کومعلوم تھا کہ طاعون کو ملک شام کاحکم ہوا ہے اور بلادشام فتح کرنے تھے لہٰذا صدیق اکبررضی اﷲ تعالٰی عنہ جو لشکرملک شام کو روانہ فرماتے اس سے دونوں باتوں پریکساں بیعت وعہدوپیمان لیتے، ایک یہ کہ دشمنوں کے نیزوں سے نہ بھاگنا، دوسرے یہ کہ طاعون سے نہ بھاگنا،
امام مسدد استاذ امام بخاری ومسلم اپنی مسند میں ابوالسفر سے روایت کرتے ہیں : قال کان ابوبکر رضی اﷲ تعالٰی عنہ اذا بعث الی الشام بایعھم علی الطعن والطاعون
ابوالسفر نے کہا حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ جب کوئی لشکر ملک شام روانہ فرماتے تو ان سے یہ بیعت (عہدوپیمان) لیتے کہ ایک تودشمن کے نیزوں سے نہ بھاگنا دوسرے مقام طاعون سے نہ بھاگنا.(فتاوٰی رضویہ : ج۲۴،ص۵۹)
اس سےمعلوم ہوا کہ بیعت (پیری مریدی )صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہے ۔
(3)
گیارہویں شریف کا مقصدایصال ثواب ہوتا ہے اور ایصال ثواب بھی حدیث مبارکہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اجمعین کے عمل سے ثابت ہے
چناچہ حدیث مبارکہ میں ہے
عن سعد بن عبادة انہ قال یا رسول اﷲ ان اُم سعد ماتت فای الصدقۃ افضل قال الماء قال فحفر بیر اوقال ھذہ لام سعد ۔
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔بیشک انھوں نے حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی کہ یا رسول اﷲ ! میری ماں نے انتقال کیا تو کون ساصدقہ افضل ہے؟ فرمایا: پانی ۔ انھوں نے کُنواں کھود کرکہا: یہ مادر سعد کے لیے ہے ۔
(۲؎ سُنن ابی داؤد کتاب الزکٰوۃ باب فی فضل سقی المائ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۲۳۶)
(سنن النسائی کتاب الوصایا فضل الصدقۃ عن المیّت نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۲ /۱۳۳)
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ایصال ثواب حضور علیہ الصلاۃ والسلام اور صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہے۔اور حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کےایصال ثواب کا نا م گیارہویں شریف رکھنا ایسا ہے جیسے اس ایصال ثواب والےکنوےکا نا م ام سعد رکھنا ۔
اس طرح کے ایک سوال کےجواب میں اعلیٰ حضرت امام اہل سنت اما م احمد رضاخان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتےہیں۔
گیارھویں شریف اپنے مرتبہ فردیت میں مستحب ہے، اور مرتبہ اطلاق میں کہ ایصال ثواب سنت ہے، او رسنت سے مراد سنتِ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۔ اور یہ سنت قولیہ مستحبہ ہے۔ سنیوں میں کوئی اسے خاص گیارھویں تاریخ ہونا شرعاًواجب نہیں جانتا، اور جوجانے محض غلطی پر ہے۔ ایصال ثواب ہر دن ممکن ہے او کسی خصوصیت کے سبب ایک تاریخ کا التزام جبکہ ایسے شرعاً واجب نہ جانے مضائقہ نہیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ہرپیر کو نفلی روزہ رکھتے کیا اتوار یا منگل کو رکھتے تو نہ ہوتا، یا اس سے یہ سمجھا گیا کہ معاذاﷲ حضورنے پیر کا روزہ واجب سمجھا؟(فتاوٰی رضویہ :ج۹،ص۱۴۵)
تعویذات احادیث اور ائمہ قدیم وحدیث سے ثابت۔(4)
اس طرح کے ایک سوال کےجواب میں اعلیٰ حضرت امام اہل سنت اما م احمد رضاخان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فتاوٰی افریقہ میں لکھتےہیں۔
اس (تعویذ)پر دلیل روشن اور وہابیت کے سر پر سخت کوہ افگن امیر المومنین مو لیٰ علی کر م اللہ وجہہ الکریم کا ارشاد ہے کہ امام ابو بکر بن السنی تلمیذ جلیل امام نسائی نے کتاب عمل الیوم واللیلۃ میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا کہ امیر المومنین علی مر تضیٰ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا "اذا کنت بواد تخاف فیھا السباع فقل اعو ذ بدانیال و بالجب من شر الا سد "جب تو ایسے جنگل میں ہو جہاں شیر کا خوف ہو تو یو ں کہہ میں پناہ لیتا ہو ں حضرت دانیال علیہ الصلاۃ و السلام اور ان کے کنوئیں کے شیر کے شیر سے ۔امام ابن السنی نے اس حدیث پر یہ باب وضع فرمایا "باب مایقول اذاخاف السباع "یعنی یہ باب ہے اس دعا کے بیان کو جو درندوں کے خوف کے وقت کی جائے ۔۔۔۔۔اس سے بڑھ کر محبوبان خداکے نام کا تعویذ کرنااور کیا ہو گا جسے مولیٰ علی ارشاد فرمارہے ہیں ،حضرت عبداللہ بن عباس روایت فر مارہے ، امام ابن السنی اس پر عمل کر نے کے لئے اپنی کتاب عمل الیو م و اللیلہ میں روایت کر رہے اس کے بتانے کو کتاب میں خاص ایک باب وضع کر رہے ہیں ۔(فتاوٰی افریقہ :ص۱۳۱،۱۳۲مکتبہ غوثیہ )
چن ستور کے بعد مزید لکھتے ہیں ۔
مواہب شریف میں امام ابو بکر احمد بن علی بن سعید ثقہ حافظ الحد یث سے ہے مجھے بخار آیا امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر ہو ئی یہ تعو یذ مجھے لکھ کر بھیجا”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بسم اللہ وباللہ و محمد رسول اللہ یا نار کو نی برداو سلما الخ “یعنی اللہ کے نام سے اور اللہ کی برکت سے اور محمد رسول اللہ کی برکت سے اے آگ ٹھنڈی اور سلامتی ہو جا الیٰ اخرہ ۔( فتاوٰی افریقہ :ص ۱۳۳مک،تبہ غوثیہ)
اس طرح کے ایک اور سوال کےجواب میں اعلیٰ حضرت امام اہل سنت اما م احمد رضاخان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فتاوٰی رضویہ میں لکھتےہیں۔
عملیات وتعویذ اسمائے الٰہی وکلام الٰہی سے ضرورجائزہیں جبکہ ان میں کوئی طریقہ خلاف شرع نہ ہو مثلاً کوئی لفظ غیرمعلوم المعنی جیسے حفیظی، رمضان، کعسلہون اور اور دعائے طاعون میں طاسوسا، عاسوسا، ماسوسا، ایسے الفاظ کی اجازت نہیں جب تک حدیث یا آثار یااقوال مشائخ معتمدین سے ثابت نہ ہو، یونہی دفع صرع وغیرہ کے تعویذ کہ مرغ کے خون سے لکھتے ہیں یہ بھی ناجائزہے اس کے عوض مشک سے لکھیں کہ وہ بھی اصل میں خون ہے، یونہی حب وتسخیر کے لئے بعض تعویذات دروازہ کی چوکھٹ میں دفن کرتے ہیں کہ آتے جاتے ا س پرپاؤں پڑیں یہ بھی ممنوع وخلاف ادب ہے، اسی طرح وہ مقصود جس کے لئے وہ تعویذ یاعمل کیاجائے اگر خلاف شرع ہو ناجائز ہوجائے گا جیسے عورتیں تسخیر شوہر کے لئے تعویذ کراتی ہیں، یہ حکم شرع کا عکس ہے۔ اﷲ عزّوجل نے شوہر کوحاکم بنایاہے اسے محکوم بنانا عورت پرحرام ہے۔ یونہی تفریق وعداوت کے عمل وتعویذ کہ محارم میں کئے جائیں مثلاً بھائی کو بھائی سے جداکرنا یہ قطع رحم ہے اور قطع رحم حرام، یونہی زن وشو میں نفاق ڈلوانا ۔
حدیث میں فرمایا: لیس منّا من خبب امرأۃ علٰی زوجھا۱؎۔
جو کسی عورت کو اس کے شوہر سے بگاڑدے وہ ہمارے گروہ سے نہیں۔
(۱؎ سنن ابی داؤد کتاب الطلاق باب فی من خبب امرأۃ الخ آفتاب عالم پریس لاہور ۱/ ۲۹۶)
بلکہ مطلقاً دومسلمانوں میں تفریق بلاضرورت شرعی ناجائزہے۔ حدیث میں فرمایا: لاتباغضوا ولاتدابروا الٰی قولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وکونوا عباداﷲ اخوانا۱؎۔
(لوگو) ایک دوسرے سے عداوت نہ رکھو اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد گرامی تک ''اے اﷲ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی ہوجاؤ''۔(ت)
(۱؎ صحیح البخاری کتاب الادب باب ماینہٰی عن التحاسد والتدابرالخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۸۹۶)
غرض نفس عمل یاتعویذ میں کوئی امرخلاف شرع ہو یامقصود میں توناجائزہے ورنہ جائزبلکہ نفع رسانی مسلم کی غرض سے محمود وموجب اجر۔
قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من استطاع منکم ان ینفع اخاہ فلینفعہ۔ رواہ مسلم۲؎ عن جابر رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
تم میں جس سے ہوسکے کہ اپنے بھائی مسلمان کو کوئی نفع پہنچائے تو پہنچائے۔ (امام مسلم نے حضرت جابر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے اسے روایت کیا۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
(۲؎ صحیح مسلم کتاب السلام باب استحباب الرقیۃ من العین الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۲۲۴)
(فتاوٰی رضویہ :ج۲۴ص۳۱)
واللہ تعالیٰ اعلم و رسولہ اعلم