اہم مسئلہ

10/05/2017 AZT-24853

اہم مسئلہ


سوال5: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین درج ِ ذیل مسئلہ کےبارے میں کہ زید ایک غیر عالم ہے لیکن مذہبی تبلیغی سر گرمیوں میں مشغول رہتا ہے اور صوم و صلاۃ کا پابند بھی، زید کہتا ہے آجکل کے بہت سے دیوبند ی صرف نام کے دیوبندی ہیں، انھیں عقائد علمائے دیوبند ی کی خبر ہی نہیں ہوتی ایسے لوگ صرف نماز و روزہ دیکھ کر پھنس جاتے ہیں ہمیں اُن کی اصلاح کرنی چاہیے انھیں اپنے قریب لانا چاہے اُن کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک کرنا چاہیے۔ مزید زید کہتا ہے کہ جب تک کسی عام دیوبندی سے کسی قسم کی گستاخی بذات ِ خود نہ دیکھ لیں اُسے ہر گز کافر و مرتد نہ کہیں اگر چہ وہ خود کو دیوبند ہی کہے کیوں کہ اپنےآپ کو دیوبند ی کہنے سے کوئی دیوبندی عقیدے والا نہیں ہو جاتا لہذا اُس پر وہ حکم نہیں جو دیوبند ی عقیدہ رکھنے والے پر ہے ۔ نیز زید کا کہنا ہے کہ مذکورہ دیوبند ی کے ساتھ میل جول رکھ سکتے ہیں ، سلام وکلام کر سکتے ہیں ، کھانے پینے کی بھی کوئی ممانعت نہیں ہے ۔جب علاقے کے لوگوں(یہ لوگ بھی غیر عالم ہیں ) کو زید کی یہ مذکورہ بالا باتوں کی اطلاع ہوئی تو لوگوں نے زید کو طلب کر کےدریافت کیا کہ یہ تمام باتیں تمہیں کہاں سے معلوم ہوئی جس پر زید نے ایک سُنّی مفتی صاحب کا نام بطورِ حوالہ پیش کیا اور کہاکے اُن مفتی صاحب سے میں نے یہ ساری باتیں سماعت کی ۔ مذکورہ لوگوں نے جب مفتی صاحب سے ملاقات کی تو انہوں نے وہی باتیں بتائیں جو زید نے کہی تھیں جس کا ذکر پہلے گزرا ۔ موجودہ صورت میں علاقے کے لوگ دو فریق میں منقسم ہو گئے۔ فریقِ اوّل کو مسلکِ اعلیٰ حضرت کا مخالف و غدار کہتے ہیں ۔ لہذا دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے ساتھ سلام وکلام ، میل جول سب کچھ ترک کردیا ہے۔ اب دریافت طلب امریہ ہے کہ۔ (۱)۔مفتی صاحب نے جن نظریات و معاملات کا اظہار ِ خیال کیا، اہل شریعت اِس پر کہاں تک متفق ہیں؟ (۲)۔اِس طرح کے نظریات و معاملات رکھنے کی صورت میں فقہائے کرام مفتی صاحب پر کیا حکمِ شرع نافد فرماتے ہیں؟ (۳)۔ زید جوکہ خود عالم نہیں اُس کا اِس طرح کے نظریات کی تبلیغ کرنا شریعت کے نزدیک کیسا فعل ہے ؟ شرع اُس پر کیا حکم نافذ کرتی ہے؟ (۴)۔ فریق ثانی کا اِس طرح سے مفتی صاحب و زید اور فریق اوّل کو مسلک ِ اعلیٰ حضرت کا مخالف و غدار کہنا عند الشرع کس شرعی حیثیت کا حامل ہے؟ (۵)۔ فریق ثانی کا غیر ِ عالم ہونے کی وجہ سے اس طرح مخالف و غدار کہنا کیا درست تھا اور شریعت اُن پر کیا حکم نافذکرتی ہے؟ (۶)۔ عند الشرع اِس طرح کے معاملات میں ایک دوسرے سے قطع تعلقی کی کوئی شرعی حیثیت ہے یا نہیں ؟ برائے کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں علمائے ربّانین کی کتُب و رسائل کے حوالے سے مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں۔ بینوا توجروا۔

الجواب بعون الملك الوهاب

اہلسنت والجماعت بریلوی حنفی کے علماء  کے نزدیک  تمام دیوبندی کافر نہیں ۔ بلکہ صرف وہی دیوبندی کافر ہیں جنہوں نے معاذ اللہ، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ و محبوبانِ ایزدی کی شان میں صریح گستاخیاں کیں اور انتہائی تنبیہ کے باوجود انہوں نے اپنی گستاخیوں سے توبہ نہیں کی۔ اور وہ دیوبندی کافر ہیں جو اپنے اکابرین کی گستاخیوں جانتے ہیں اور ان  گستاخیوں کو حق سمجھتے ہیں اور گستاخیاں کرنے والوں کو مومن، اہل حق اپنا مقتداء اور پیشوا مانتے ہیں۔ان کے علاوہ باقی دیوبندی کافر نہیں ہیں ۔

غزالی زماں رازی دوراں حضرت علامہ ملانا پیر سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس بارے میں لکھتے ہیں ۔

مسئلہ تکفیر میں ہمارا مسلک ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ جو شخص بھی کلمۂ کفر بول کر اپنے قول یا فعل سے التزام کفر کر لے گا تو ہم اس کی تکفیر میں تامل نہیں کریں گے خواہ وہ دیوبندی ہو یا بریلوی، لیگی ہو یا کانگریسی، نیچری ہو یا ندوی۔ اس بارے میں اپنے پرائے کا امتیاز کرنا اہل حق کا شیوہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک لیگی نے کلمۂ کفر بولا تو ساری لیگ کافر ہو گئی یا ایک ندوی نے ایک التزام کفر کیا تو معاذ اللہ سارے ندوی مرتد ہوگئے۔ ہم تو بعض دیوبندیوں کی عباراتِ کفریہ کی بناء پر ہر ساکن دیوبند کو بھی کافر نہیں کہتے۔ چہ جائے کہ تمام لیگی اور سارے ندوی کافر ہوں۔ ہم اور ہمارے اکابر نے بارہا اعلان کیا کہ ہم کسی دیوبند یا لکھنؤ والے کو کافر نہیں کہتے۔ ہمارے نزدیک صرف وہی لوگ کافر ہیں جنہوں نے معاذ اللہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ و محبوبانِ ایزدی کی شان میں صریح گستاخیاں کیں اور باوجود تنبیہ شدید کے انہوں نے اپنی گستاخیوں سے توبہ نہیں کی۔ نیز وہ لوگ جو ان کی گستاخیوں کو حق سمجھتے ہیں اور گستاخیاں کرنے والوں کو مومن، اہل حق اپنا مقتداء اور پیشوا مانتے ہیں اور بس۔ ان کے علاوہ ہم نے کسی مدعی اسلام کی تکفیر نہیں کی۔ ایسے لوگ جن کی ہم نے تکفیر کی ہے اگر ان کو ٹٹولا جائے تو وہ بہت قلیل اور محدود افراد ہیں۔ ان کے علاوہ نہ کوئی دیوبند کا رہنے والا کافر ہے نہ بریلی کا، نہ لیگی نہ ندوی ہم سب مسلمانوں کو مسلمان سمجھتے ہیں۔(مقالات کاظمیہ:حصہ دوم ،ص۲۰)

لہٰذا،

(۱)۔اہل  شریعت مذکورہ تمام نظریات  و معاملات کےدرست اور صحیح ہونے پر متفق ہیں۔

(۲)۔مذکورہ نظریات  و معاملات  رکھنے کی صورت میں فقہائے  کرام  مفتی  صاحب  پر حق بجانب کا حکم نافذ فرماتے ہیں ۔

(۳)۔ زید کا  اِس  طرح کے نظریات  کی  تبلیغ  کرنا شرعادرست  ہےاور شریعت اُس  پر کوئی حکم نافذ نہیں کرتی  ہے۔

(۴)۔  فریق ثانی  کا  مفتی صاحب  ، زید  اور فریق  اوّل  کو مسلک ِ  اعلیٰ حضرت  کا مخالف  و غدار  کہنا  عند الشرع ان سب پربہتان  لگانا ہے ۔

(۵)۔فریق ثانی  کافریق اول کو مسلک اعلیٰ حضرت کامخالف  و غدار  کہنا درست نہیں تھا، اب  شرعافریق اول پر اللہ تعالیٰ کے حضور اور فریق اول سے معافی مانگنااور انہیں راضی کرنا ضروری ہے ۔

(۶)۔عند الشرع  اِس  طرح کے معاملات  میں ایک  دوسرے  سے قطع   تعلقی  کرنا شرعادرست نہیں ۔

واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم

  • مفتی محمد سیف اللہ باروی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء