قرآن و سنت کی رو سے آئی وی ایف ٹریٹمینٹ کی حیثیت کیا ہے؟
قرآن و سنت کی رو سے آئی وی ایف ٹریٹمینٹ کی حیثیت کیا ہے؟
الجواب بعون الملك الوهاب
"آئی وی ایف ٹریٹمینٹ"کو (ٹیسٹ ٹیوب بے بی)بھی کہتے ہیں ۔اورٹیسٹ ٹیوب بے بی بعض صورتوں میں جائز اور بعض صورتوں میں نا جائز ہے ۔
جواز کی صورتیں :(١)مردعمل تزویج پرقادر نہ ہو ۔(٢)مردعمل تزویج پرقادرہو ،مگر اسکے مادئہ تولید میں جرثوموں کی مقدر اتنی کم ہوکہ اولاد کا حصول اس حالت میں بہت دشوار ہو۔(٣)مردعمل تزویج پرقادرہواور مادئہ تولید میں جرثوموں کی مقدربھی پوری ہو لیکن مرد میں کسی خرابی کے باعث وہ تولیدی جرثومے نسوانی نالی تک نہ پہنچ سکیں ۔(۴)مردہر لحاظ سے صحت مندہو مگربیوی ایسی بیمار ہے کہ جماع کے ذریعے اولاد کا حصول ناممکن یا مشکل ہے۔مثلا نسوانی نالی سکڑگئی ہے یا اس میں انفیکشن ہو گیا ہے یا کو ئی اور خرابی ہے جس کی وجہ سے کا شت شدہ انڈے رحم کی طرف سفر نہیں کر سکتے یا رحم کی ساخت میں خرابی ہے جس کی وجہ سے مرد کے جرثومے نسوانی نالی میں نہیں پہنچ سکتے ۔ان سب صورتوں میں "آئی وی ایف ٹریٹمینٹ"یعنی (ٹیسٹ ٹیوب بے بی)کا عمل جائز ہے بشرطیکہ جرثومے شوہرکے ہو ں اور انڈے اسی شوہر کی بیوی کے ہو ں اور اسی شوہر کی بیوی کے رحم میں رکھے جائیں ۔
چنانچہ الفقہ الاسلامی وادلتہ کے باب سابع الحظر والاباحۃ میں ہے:
التلقیح الصناعی:ہو استدخال المنی لرحم المرأۃ بدون جماع. فإن کان بماء الرجل لزوجتہ، جاز شرعاً، إذ لا محذور فیہ، بل قد یندب إذا کان ہناک ما نع شرعی من الاتصال الجنسی.(جلد چہارم ص٢٦٤٩ مطبوعہ: شام)
مرد کانطفہ مصنوعی طریقہ سے عورت 'کی اندام نہانی' میں ڈالنا:وہ منی کا عورت کی اندام نہانی میں بغیر جماع کے داخل کرنا ہے .اوراگر 'یہ عمل' شوہر کے نطفہ کیساتھ ہو اسکی زوجہ کے لیے تو شرعاً جائز ہے جس میں کوئی پرہیز نہیں بلکہ کبھی مستحب بھی ہوتا ہے جبکہ وہاں جنسی میلاپ سے مانع شرعی موجود ہو۔
اور ''المغنی''لابن قدامہ میں ہے:
وقد قیل: إن المرأۃ تحمل من غیر وطء بأن یدخل ماء الرجل فی فرجہا، إما بفعلہا أو فعل غیرہا.
بے شک عورت وطی کے علاوہ 'بھی'حاملہ ہوتی ہے بایں طرح کہ مرد کا نطفہ اسکی اندام نہانی میں داخل ہوجائے یا توخود اس عورت کے فعل سے یا اسکے علاہ کے فعل سے۔
البتہ اس عمل میں بظاہر دو خرابیاں لازم آتی ہیں ایک مرد کا ارتکابِ جلق جو حرام ہے ۔
دوسرا عورت کامرد ڈاکٹریا لیڈی ڈاکٹر اور اسکے عملے کے روبرو اپنی شرم گاہ کاکھولنا ۔
جلق کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں ضروری نہیں کہ مرد کو جلق کا ارتکاب کرنا پڑے کیونکہ عزل اورعورت کے بدن سے استمتاء کے ذریعے بھی یہ حاجت پوری کی جاسکتی ہے۔
اورمرد ڈاکٹریا لیڈی ڈاکٹر اور اسکے عملے کے روبرو عورت کا اپنی شرم گا کھولنےکا جواب یہ ہے کہ اسکی ممانعت عام حالات میں ہے، ضرورت کے اوقات میں کشف جائز ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ عمل از قبیل علاج ہے اور علاج معالجہ میں عورت عورت کے سامنے چھپے اعضاء کو کھول سکتی ہے حتی کہ شدید ضرورت میں مرد ڈاکٹر کے سامنے بھی کھول سکتی ہے۔
ھدایہ شریف میں ہیں ۔
ویجوز للطبیب أن ینظر إلی موضع المرض منہا" للضرورۃ "وینبغی أن یعلم امرأۃ مداواتہا" لأن نظر الجنس إلی الجنس أسہل "فإن لم یقدروا یستر کل عضو منہا سوی موضع المرض ''ثم ینظر ویغض بصرہ ما استطاع؛ لأن ما ثبت بالضرورۃ یتقدر بقدرہا وصار کنظر الخافضۃ والختان. "وکذا یجوز للرجل النظر إلی موضع الاحتقان من الرجل" لأنہ مداواۃ
طبیب کے لیے ضرورت کی وجہ سے عورت کے موضع مرض کو دیکھنا جائز ہے اور مناسب یہ ہے کہ کسی عورت کو اسکا علاج سکھلادے کہ جنس کا جنس کی طرف دیکھنا زیادہ آسان ہے اگر وہ قادر نہ ہو تو عورت کا ہر عضو مرض کی جگہ کے علاوہ چھپادیا جائے پھر طبیب دیکھے اور جہاں تک ہوسکے اپنی نظر کو نیچی رکھے کہ جو چیز ضرورت کیوجہ سے ثابت ہوتی ہے وہ بقدرِ ضرورت ثابت ہوتی ہے اور یہ ایسے ہے جیسے خافضہ اور ختان کا دیکھنااور یونہی مرد کے لیے مرد کے حقنہ کی جگہ کو دیکھنا 'بھی' جائز ہے کیونکہ احتقان علاج ہے
(ہدایہ ،کتاب الکراہیۃ ،فصل فی الوطء والنظر واللمس ٤٠٩ ، مطبوعہ: ایچ ایم سعید کراچی)
عدم جواز کی صورتیں :
(۱)اگر جرثومے شوہر کے نہ ہوں بلکہ کسی اور کے جرثومے لیکر بیوی کے انڈوں کیساتھ ٹیسٹ ٹیوب میں رکھے جائیں بعد ازاں بیوی کے رحم میں اس کو منتقل کر دیا جائے ۔(۲)بیوی کے انڈے نہ ہوں بلکہ کسی اور عورت کے انڈے شوہر کے جرثوموں کے ساتھ ٹیسٹ ٹیوب میں ملائے جائیں بعد ازاں بیوی کے رحم میں اس کومنتقل کردیا جائے ۔(۳)شوہر کے جرثومے بیوی کے انڈوں سے ٹیسٹ ٹیوب میں ملا کر کسی اور عورت کے رحم میں رکھے جائیں ۔یہ سب صورتیں ناجائز اور حرام ہیں ۔کیو نکہ ان صور توں میں غیر کی ملکیت کو استعمال کرنا ہے ۔
حدیث مبارکہ میں ہے "لایحل لامراء یؤمن باللہ والیوم الاخر ان یسقی ماء ہ زرع غیرہ"اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو حلال نہیں کہ اپنے پانی سے غیر کی کھیتی کو سیراب کرے
(ابوداؤد شریف ج١،ص٢٩٣،مطبوعہ :مجتبائی لاہور)
اور الفقہ الاسلامی وادلتہ کے باب سابع الحظر والاباحۃ میں ہے:
وأما إن کان بماء رجل أجنبی عن المرأۃ، لا زواج بینہما، فہو حرام؛ لأنہ بمعنی الزنا الذی ہو إلقاء ماء رجل فی رحم امرأۃ، لیس بینہما زوجیۃ. ویعد ہذا العمل أیضا منافیاً للمستوی الإنسانی۔(جلد چہارم ص٢٦٤٩ مطبوعہ: شام)
اور اگر 'یہ عمل 'اجنبی مرد کے نطفہ کیساتھ عورت سےہو،جن کے مابین نکاح نہیں تو حرام ہے کیونکہ یہ معنیً زنا ہے۔کہ زنا: مرد کا نطفہ اس عورت کی اندام نہانی میں ڈالنا ہے جن کے درمیان نکاح نہ ہو اور اس عمل کو بھی انسانی منافع وصول کرنے کے منافی شمار کیا جاتا ہے۔
تفریعات :
(١)ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے ذریعہ پیدا ہونے والا بچہ ثابت النسب ہوگا۔
فتح القدیر میں ہے
وما قیل: لا یلزم من ثبوت النسب منہ وطؤہ لأن الحبل قد یکون بإدخال الماء الفرج دون جماع فنادر
اور وہ جو کہا گیا کہ اس سے ثبوتِ نسب سے اس مرد کا وطی کرنا لازم نہیں آتا اسلیئے کہ حمل کبھی جماع کے علاوہ اندام نہانی میں منی داخل کرنے سے بھی ہوتا ہے 'یہ 'نادر ہے۔ (ج:٤،ص:١٧١،مطبوعہ: مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر)
(ج:١،ص:١٨٧،مطبوعہ: بیروت)
(۲)ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے ذریعہ پیدا ہونے والا بچہ وارث و مورث ہوگا یعنی یہ ان میاں بیوی کا وارث ہوگا اور وہ دونوں اس کے وارث ہوں گے ۔
ایسے ہی رشتوں کی حلت و حرمت اور رضاعت کے احکام ویسے ہی مرتب ہوں گے جیسے نارمل طریقہ پر پیدا ہونے والے بچوں کے ہوتے ہیں ۔واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم