طہارت کے متعلق سوال
طہارت کے متعلق سوال
الجواب بعون الملك الوهاب
صورت مسئولہ میں بچے کوشراب پلانا حرام ہے ۔ کیونکہ نمونیہ میں بچے کی جان حلال دواؤں سے بھی بچ سکتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کو بچانامنظور ہو۔ورنہ شراب بچہ میں سوائے بری خصلت کے کچھ اضافہ نہیں کرے گا ۔اورجو بچے کو شراب یا اور کوئی حرام چیز کھلائے یا پلائے سخت حرام کامرتکب اور شدید سزاکامستحق ہے۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزْلٰمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجْتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوۡنَ ﴿۹۰﴾ اِنَّمَا یُرِیۡدُ الشَّیۡطٰنُ اَنۡ یُّوۡقِعَ بَیۡنَکُمُ الْعَدٰوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیۡسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنۡ ذِکْرِ اللہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ ۚ فَہَلْ اَنۡتُمۡ مُّنۡتَہُوۡنَ
اے ایمان والو شراب اور جُوااور بُت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ
شیطان یہی چاہتا ہے کہ تم میں بَیر اور دشمنی ڈلوا وے شراب اور جوئے میں اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکے تو کیا تم باز آئے۔ (سورۃ المائدہ :آیہ ۹۰)
حدیث مبارکہ میں ہے ۔
حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں : ’’میری بیٹی نے مجھ سے کسی مرض کی شکایت کی تو میں نے اس کے لئے ایک کُوزہ میں نبیذ بنائی،حضورنبی ٔمُکَرَّم،نُورِ مجسَّمصلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَـــیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممیرے پاس تشریف لائے جبکہ نبیذ جوش مار رہی تھی،آپصلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَـــیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دریافت فرمایا:’’اے اُمِّ سلمہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا)یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کی:’’میں اس سے اپنی بیٹی کا علاج کروں گی۔‘‘ تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول صلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَـــیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’اللہ عَزَّوَجَلَّنے جو چیز میری اُمَّت پر حرام کی ہے اس میں اس کے لئے شفا نہیں رکھی۔‘‘
(المعجم الکبیر،الحدیث:۷۴۹ ،ج۲۳، ص۳۲۶)
اورحضرت دائل بن حجرؓ سے روایت ہے کہ طارق بن سوید جعفیؓ نے نبی اکرمﷺ سے شراب کے بارے میں پوچھا تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں تو اسے دوا کیلئے بناتا ہوں تو آپ نے فرمایا:
انه ليس بدواء ولكنه داء- ( صحيح مسلم :ج۳،ص۱۵۷۳)
’’یہ دوا نہیں بلکہ یہ تو بیماری ہے‘‘۔
حضرت ابوالدردائؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ الدَّاءَ وَالدَّوَاءَ، وَجَعَلَ لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءً فَتَدَاوَوْا وَلَا تَدَاوَوْا بِحَرَامٍ ۔
( سنن ابی داؤد:ج۲،ص۴۰۰)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے دوا کو نازل فرمایا اوربیماری کوبھی نازل کیا ہے اور ہر بیماری کیلئے دوا بھی بنائی ہے تو دوا ضرور استعمال کرو لیکن حرام چیز کو بطور دوائی استعمال نہ کرو‘‘۔
مذکورہ آیت اور احادیث سے معلوم ہو اکہ شراب سے علاج حرام ہے اور اس میں شفانہیں ہے ۔
بہارشریعت میں
کھانے پینے پر دوا اور علاج کو قیاس نہ کیا جائے، یعنی حالتِ اضطرار میں مردار اور شراب کو کھانے پینے کا حکم ہے، مگر دوا کے طور پر شراب جائز نہیں کیونکہ مردار کا گوشت اور شراب یقینی طور پر بھوک اور پیاس کا دفعیہ ہے اور دوا کے طورپر شراب پینے میں یہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ مرض کا ازالہ ہی ہوجائے گا۔ (ردالمحتار)(بہار شریعت :ج۳،ح۱۶،ص۳۷۴)
اسی طرح بہارشریعت میں ہے ۔
حرام چیزوں کو دوا کے طور پر بھی استعمال کرنا ناجائز ہے، کہ حدیث میں ارشاد فرمایا:''جو چیزیں حرام ہیں ان میں اﷲتعالیٰ نے شفا نہیں رکھی ہے۔"بعض کتب میں یہ مذکور ہے کہ اگر اس چیز کے متعلق یہ علم ہو کہ اسی میں شفاہے تو اس صورت میں وہ چیز حرام نہیں اس کا حاصل بھی وہی ہے۔ کیونکہ کسی چیز کی نسبت ہرگز یہ یقین نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس سے مرض زائل ہی ہوجائے گا، زیادہ سے زیادہ ظن اور گمان ہوسکتا ہے نہ کہ علم و یقین، خود علمِ طب کے قواعد و اُصول ہی ظنی ہیں لہٰذا یقین حاصل ہونے کی کوئی صورت نہیں، یہاں ویسا یقین بھی نہیں ہوسکتا جیسا بھوکے کو حرام لقمہ کھانے سے یا پیاسے کو شراب پینے سے جان بچ جانے میں ہوتا (بہار شریعت :ج۳،ح۱۶ص۵۰۶)
درمختارمیں ہے ۔
فی البحر لا یجوز التداوی بالمحرم فی ظاھر المذھب ۱؎۔ یعنی بحرالرائق میں ہےکہ مذہب حنفی ظاہر الروایہ میں حرام چیز سے علاج کرنا جائز نہیں۔
(۱؎ درمختار کتاب النکاح باب الرضاع مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۲۱۲)(فتاوٰی رضویہ:ج۲۳،ص۷۳)