اسقاط حمل کا حکم
اسقاط حمل کا حکم
الجواب بعون الملك الوهاب
صورت مسئولہ میں مفتیاں کرام نےدرست فتویٰ دیا ہےکہ آپ پر روزوں سے کفارہ لازم نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی اور کفارہ لازم ۔مگر آپ پر توبہ و استغفار اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شرمدہ ہو ناضروری ہیں کیونکہ اگرچہ چار ماہ سے کم عمرکا بچہ ضائع کرانے پر کفارہ نہیں ہے لیکن چار ماہ سے کم عمرکا بچہ اس وقت ضائع کرانا جائز ہے جب کی عورت کو جان یا کسی عضو کے تلف ہونے کا اندیشہ ہو یا پہلے والے بچہ کی جان یا کسی عضو کے تلف ہونےکا اندیشہ ہو ورنہ جائز نہیں ۔اور صورت مسئولہ میں جب ڈاکٹر کہا کہ جان کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا تو پھر بچہ کو ضائع کرنا جائز نہیں تھااگرچہ وہ چار ماہ سے کم کا تھا ۔اس لئے آپ پر توبہ و استغفار اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شرمدہ ہو ناضروری ہیں۔
اس طرح کےایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری بریلوی ی علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتے ہیں ۔
(بچہ میں)جان پڑجانے کے بعد اسقاط حمل حرام ہے، اور ایساکرنے والا گویاقاتل ہے، اور جان پڑنے سے پہلے اگرکوئی ضرورت ہے (یعنیعورت کو جان یا کسی عضو کے تلف ہونے کا اندیشہ ہو یا پہلے والے بچہ کی جان یا کسی عضو کے تلف ہونےکا اندیشہ ہو)تو حرج نہیں۔(فتاوٰی رضویہ :ج،۲۴ص،۳۴)
اس طرح کےایک اورسوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری بریلوی ی علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتے ہیں ۔
اگرا بھی بچہ نہیں بناجائزہے ورنہ ناجائز کہ بے گناہ کا قتل ہے اور چارمہینے میں بچہ بن جاتاہے۔