ولديت میں حقیقی باپ کا نام لکھنا ضروری ہے

07/11/2016 AZT-21053

ولديت میں حقیقی باپ کا نام لکھنا ضروری ہے


کیا فرماتے ہیں علمائے دین ذیل کے اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص اسلام قبول کرے اور اس کے ماں باپ کافر ہوں، تو اس کے نام کے ساتھ ولدیت میں باپ کا نام پکارا جائے گا یا اور کو دوسرا نام ـ مثلاً اس شخص کا نام عبدالله رکھا گیا اور اس کے باپ کا نام شنکر ہے تو عبدالله ابن شنکر کہا جائے گا یا کچھ اور؟ برائے کرم جلد از جلد جواب عنایت فرمائیں ـفقط والسلام۔ غیاث قریشی

الجواب بعون الملك الوهاب

ولدیت میں حقیقی باپ کا نام لکھنا ضروری ہے اگرچہ باپ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ ابو جہل  کافر کے بیٹے حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ جب ایمان لے آئے تو تب بھی ان کو عکرمہ بن ابی جہل کہتے تھے۔ اور کتب حدیث میں ان کا  نام ایسے ہی  لکھا جاتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: :« عَنْ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ، يَقُولُ: مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ، فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ ». ترجمہ: حضرت سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کیا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو جنت اس پر حرا م ہے۔ [صحیح البخاری، رقم الحدیث: 6766]۔

  • مفتی محمد احسن
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء