جو اللہ کے ولی سے بغض رکھتے ہیں میں ان سے اعلان جنگ کرتا ہوں کی دلیل؟؟؟؟؟
جو اللہ کے ولی سے بغض رکھتے ہیں میں ان سے اعلان جنگ کرتا ہوں کی دلیل؟؟؟؟؟
جو اللہ کے ولی سے بغض رکھتے ہیں میں ان سے اعلان جنگ کرتا ہوں، حقیقتًا اس کا کیا مفہوم ہے؟ (سید پاشا قادری، سید صفی الدین پاشا قادری، بالمقابل ایوان شاہی، مسجد ایوان شاہی)
الجواب بعون الملك الوهاب
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ قَالَ مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ " رسول اللہ ﷺنے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہجو شخص میرے کسی ولی سے بغض رکھے میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں اس حدیث کا حقیقتا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کسی ولی سے بغض رکھتا ہووہ یا تو کافر ہے یا اس کے کفر پر مرنے کا اندیشہ ہے۔
اس حدیث کے تحت مفتی احمد یا رخان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ۔
یعنی جو میرے ایک ولی کا دشمن ہے وہ مجھ سے جنگ کرنے کو تیار ہوجائے،خدا کی پناہ ۔ یہ کلمہ انتہائی غضب کا ہے صرف دو گناہوں پر بندے کو رب تعالٰی کی طرف سے اعلان جنگ دیاگیا ہے ایک سود خوار دوسرے دشمن اولیاء رب تعالٰی فرماتاہے:"فَاۡذَنُوۡا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوۡلِہٖ"۔علماء فرماتے ہیں کہ ولی کا دشمن کافر ہے اور اس کے کفر پر مرنے کا اندیشہ ہے۔(مرقات)خیال رہے کہ ایک ہے ولی اﷲ سے اس لیے عداوت و عناد کہ ولی اﷲ ہے یہ تو کفر ہے اسی کا یہاں ذکر ہے اور ایک ہے کسی ولی سے اختلاف رائے یہ نہ کفر ہے نہ فسق لہذا اس حدیث کی بناء پر یوسف علیہ السلام کے بھائی اور وہ صحابہ جن کی آپس میں لڑائیاں رہیں ان کو برا نہیں کہا جاسکتا کہ وہاں اختلاف رائے تھا عناد نہ تھا۔ عناد و اختلاف میں بڑا فرق ہے،اس کے لیے ہماری کتاب امیر معاویہ دیکھئے حتی کہ حضرت سارا کو اس بنا پر برا نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے حضرت ہاجرہ و اسمعیل علیہما السلام کی مخالفت کی،اس لیے یہاں عادی فرمایا خالف نہ فرمایا اور لی ولیا فرمایا ولی اﷲ نہ فرمایا۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح :۳،ص۴۹۰)