خودکش دھماکوں کا حکم

02/17/2018 AZT-25816

خودکش دھماکوں کا حکم


سلام کیا خودکش دھماکہ یا اسلامی ملک کے لیے خودکشی کے جواز کی کوئی صورت ہے؟ (سید عزیر جاوید)

الجواب بعون الملك الوهاب

خوارج جو دنیاکے مختلف ممالک میں خود کش دھماکے کررہے ہیں یہ حرام ،حرام اور اشد حرام ہیں  ،ان  کے جواز کی شریعت میں کوئی صورت نہیں ہے۔اگرچہ اسلامی ملک حاصل کرنے کیلئے کیوں نہ ہوں ۔کیونکہ خودکش دھماکہ کرنا،ایک تو خود کشی کرنا ہے اور دوسرا اکثرخود کش دھماکوں میں سیکڑوں مسلمانوں کی جانیں  ضائع ہوجاتی  ہیں ،جس طرح بے شمار مسلمانو ں   کی جانیں اس سبب سے  ضائع ہوچکی ہیں ۔ اور خود کشی کر نا یا دوسرے مسلمانوں کو قتل کرنا  دونوں حرام ِقطعی ہیں،اور ایسا کرنے والے سخت مجرم ،گناہِ کبیرہ کے مرتکب اور  جہنمی ہیں۔

 چنانچہ:اللہ تعالی کا فرمان ہے:

’’وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا، وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ عُدْوَانًا وَّظُلْمًا  فَسَوْفَ نُصْلِيْهِ نَارًا  ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرًا ‘‘(سورۃ النساء: آیۃ:-۲۹،۳۰---)

ترجمہ کنزالایمان :’’اوراپنی جانیں قتل نہ کرو بے شک اللہ تم پر مہربان ہے اور جو ظلم و  زیادتی سے ایسا کرے گا تو عنقریب ہم اُسے آگ میں داخل کریں گے اور یہ اللہ کو آسان ہے‘‘

اس آیت کریمہ میں دونوں باتیں شامل ہیں کہ چاہے اپنے آپ کو خود مار ڈالے یا کسی دوسرے کو مارنے کی خاطر اپنے آپ کو مارڈالے حرام ہے،بلکہ اپنی جان کی غایت درجہ حفاظت کرنی فرض ہے۔اور یہ آیت اس بات سےمانع نہیں کہ انسان جہاد فی سبیل اللہ میں شریک ہو اور اپنے آپ کو شہادت کیلئے پیش کردے ،لیکن  خودکش حملہ یا خود کشی حرام ہے۔

 

اور اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

وَمَنۡ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیۡہَا وَغَضِبَ اللہُ عَلَیۡہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیۡمًا (سورۃ النساء :آیۃ،۹۳)

ترجمہ کنزالایمان :اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے  اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئےتیار رکھا بڑا عذاب۔

اس آیت  کریمہ سے معلوم ہو اکہ کسی مئومن  کو قتل کرنے والا  اللہ تعالی کے غضب ،لعنت اور عذاب عظیم کا مستحق اور جہنمی ہے ۔

اس آیت کے تحت صدر الافاضل  سید  نعیم الدیں مرادآبادی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں ۔

حدیث شریف میں ہے کہ دنیا کا ہلاک ہونا اللہ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل ہونے سے ہلکا ہے پھر یہ قتل اگر ایمان کی عداوت سے ہو یا قاتل اس قتل کو حلال جانتا ہو تو یہ کفر بھی ہے۔

اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:

اَنَّہٗ مَنۡ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیۡرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الۡاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ وَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ وَلَقَدْ جَآءَ تْہُمْ رُسُلُنَا بِالۡبَیِّنٰتِ ۫ ثُمّ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنْہُمۡ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الۡاَرْضِ لَمُسْرِفُوۡنَ (سورۃالمائدہ:آیۃ ،۳۲)

ترجمہ کنزالایماں:جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کیے  تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیااور جس نے ایک جان کو جِلا لیا اس نے گویا سب لوگوں کو جِلالیا اور بے شک ان کے  پاس ہمارے رسول روشن دلیلوں کے ساتھ آئے پھر بے شک اُن میں بہت اس کے بعد زمین میں زیادتی کرنے والے ہیں ۔

حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ قَالَ نَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رَجُلٍ يُقَاتِلُ الْمُشْرِكِينَ وَكَانَ مِنْ أَعْظَمِ الْمُسْلِمِينَ غَنَاءً عَنْهُمْ فَقَالَ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا فَتَبِعَهُ رَجُلٌ فَلَمْ يَزَلْ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى جُرِحَ فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ فَقَالَ بِذُبَابَةِ سَيْفِهِ فَوَضَعَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ فَتَحَامَلَ عَلَيْهِ حَتَّى خَرَجَ مِنْ بَيْنِ كَتِفَيْهِ

(صحیح الخاری:حدیث۶۴۹۳)

حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،انہوں نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک آدمی  کو دیکھا جو مشرکیں کو قتل کر رہاتھا اور بڑی  بہادری سے لڑرہا  تھا ، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص کسی جہنمی آدمی کو  دیکھنا چاہے ، تووہ اس  آدمی کو دیکھ لے تو ایک شخص  مسلسل اس آدمی کے پیچھےرہا یہاں تک کہ وہ آدمی زخمی ہو گیا تو اس نے خود کشی کر لی ،راوی کہتےہیں کہ اس آدمی نے اپنی تلوار کی نوک اپنے سینہ کے درمیان رکھی او ر اس پر اپنے آپکو ڈال دیا حتی کہ تلوار اس کے دونو ں کندھوں کے درمیاں سے پارنکل گئی ۔

اور حدیث مبارکہ میں ہے :

قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من قتل نفسه بحديدة فحديدته في يده يتوجأ بها في بطنه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا ومن شرب سما فقتل نفسه فهو يتحساه في نار جهنم خالا مخلدا فيها أبدا ومن تردى من جبل فقتل نفسه فهو يتردى في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا(صحیح المسلم:ج۱،ص۱۰۳)

 مذکورہ آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ  سے معلوم ہوا کہ خود کش دھماکے اور خود کشی  دونوں حرام ہیں  اور ان جواز کی شریعت میں کوئی صورت نہیں ہے ۔اور ایساکرنے والے سخت مجرم ،گناہِ کبیرہ کے مرتکب اور دائمی جہنمی ہیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم

  • مفتی محمد سیف اللہ باروی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء