کسی شخص پر بزرگ کی سواری کی حقیقت

04/27/2017 AZT-24227

کسی شخص پر بزرگ کی سواری کی حقیقت


کیا کوئی ولی اللہ (اللہ کا نیک بندہ )بعد از وصال ،روحانی طور پر کسی شخص کے جسم میں یا کسی خاص جگہ پر کچھ وقت کے لیے حاضر ہو سکتا ہے؟ہمارے ہاں اکثر سنا جاتا ہے کہ فلاں شخص میں بزرگ حاضر ہوتے ہیں۔برائے مہربانی مسئلہ کی وضاحت فرما دیں۔ شکریہ (اورنگزیب، محلہ شیخاں ، ننکانہ صاحب)

الجواب بعون الملك الوهاب

بعد از وصال کوئی ولی اللہ روحانی طور پر کسی شخص کے جسم میں یا جسم پر  حاضرہوشریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے ،بلکہ اگر کو ئی  شخص اس کا دعویٰ کر ے تو وہ مکّار اور فریبی ہے ۔اس طرح کے ایک سوال کے جواب  میں حضرت مولانا مفتی شریف الحق امجدی قدس سرہ لکھتے ہیں ،یہ سب مکر و فریب ہے۔کو ئی بزرگ کسی پر نہیں آتا اس پراعتماد کرنا جائزنہیں ہاں خبیث ہمزاد اور جنات آتے ہیں ۔(فتاوٰی شارح بخاری ،ج۲،ص۱۴۸)اسی طرح ایک اور سوال کے جواب لکھتے ہیں ۔حضرات اولیاء کرام کسی پرآئیں اس کی کو ئی اصل نہیں ۔( فتاوٰی شارح بخاری ،ج۲،ص۱۹۴)

ہاں بعد از وصال اولیاء کرام روحانی طور پر کسی بھی خاص جگہ جب چاہیں تشریف لاسکتے ہیں 

اللہ تعالیٰ نے قر آن مجید میں ارشاد فرمایا ہے

قَالَ یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَؤُا اَیُّکُمْ یَاۡتِیۡنِیۡ بِعَرْشِہَا قَبْلَ اَنۡ یَّاۡتُوۡنِیۡ مُسْلِمِیۡنَ قَالَ عِفْرِیۡتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبْلَ اَنۡ تَقُوۡمَ مِنۡ مَّقَامِکَ ۚ وَ اِنِّیۡ عَلَیۡہِ لَقَوِیٌّ اَمِیۡنٌ قَالَ الَّذِیۡ عِنۡدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبْلَ اَنۡ یَّرْتَدَّ اِلَیۡکَ طَرْفُکَ ؕ فَلَمَّا رَاٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنۡدَہٗ قَالَ ہٰذَا مِنۡ فَضْلِ رَبِّیۡ ۟ۖ لِیَبْلُوَنِیۡۤ ءَاَشْکُرُ اَمْ اَکْفُرُ ؕ وَمَنۡ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ ۚ وَمَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیۡ غَنِیٌّ کَرِیۡمٌ

ترجمہ:سلیمان نے فرمایا اے درباریو تم میں کون ہے کہ وہ اس کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ میرے حضور مطیع ہوکر حاضر ہوں ، ایک بڑا خبیث جن بولا میں وہ تخت حضور میں حاضر کردوں گا قبل اس کے کہ حضور اجلاس برخاست کریں  اور میں بیشک اس پر قوت والا امانتدار ہوں ،اس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھا  کہ میں اسے حضور میں حاضر کردوں گا ایک پل مارنے سے پہلے  پھر جب سلیمان نے  تخت کو اپنے پاس رکھا دیکھا کہا یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری اور جو شکر کرے وہ اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے  اور جو ناشکری کرے تو میرا رب بے پرواہ ہے سب خوبیوں والا (سورۃ النمل ،آیۃ،۳۸۔۳۹۔۴۰)

قرآن مجید کی ان آیات سے معلو م ہوتا ہے کہ اولیاء کرام  روحانی طور پرکسی خاص جگہ جب  چاہیں حاضر ہو سکتے ہیں ۔ اس طرح کے ایک سوال کے جواب  میں حضرت مولانا مفتی شریف الحق امجدی قدس سرہ لکھتے ہیں، (اللہ تعالیٰ نے)حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک امتی  کو کہ  یہ قوت  عطافرمائی تھی کہ سیکڑوں میل کی دوری سے بلقیس کا منوں وزنی تخت پلک جھپکنے کے اندر اندر در بار سلیمان میں حاضر کردیں ۔احادیث اس بارے میں اتنی کثیر ہیں کہ ان کا احاطہ مشکل ہے ۔بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہررضی  اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک حدیث قدسی مروی ہے کہ اللہ عزو جل نے ارشاد فر مایا ۔

فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا

جب میں اپنے بندے کو محبوب بنالیتا ہو ں تو میں اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ،میں اس کے کان ہو جاتا ہو ں جس سے وہ سنتا ہے، میں اس کا ہاتھ  ہو جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے ،میں اس کا پاؤ ں ہو جاتا ہو ں جس سے وہ چلتا ہے۔

اللہ عزو جل  ان اعضاسے منزہ ہے اس لیئے امام رازی نے تفسیر  کبیر میں اس کی تو جیہہ فرمائی کہ مراد یہ ہےکہ اللہ عزوجل اپنے محبوبوں کی آنکھ ،کان ،ہاتھ میں یہ قوت پیدا فر مادیتا ہے کہ وہ نزدیک اور دور ظاہر اور چھپی ہو ئی ہر چیز کو دیکھتے ہیں۔دور و نز د یک بلند ،پست آواز کو سنتے ہیں ،عالم میں تصرف کرتے ہیں ۔یعنی اللہ کے اذن سے جسے جو چاہیں عطاکر دیں ،جس سے جو چاہیں چھین لیں ، دور ونزدیک جہاں چاہیں حاضر ہو جائیں ۔اس لیے حضور غوث اعظم رضی  اللہ نے ارشاد فرمایا "من استغاث فی کر بۃ کشفت عنہ " کسی بھی مصیبت میں جو مجھ سے فر یا د کرے گا میں اسکی مصیبت دور کروں گا ۔

عقائد کی مشہور کتاب عقائد نسفی میں ہے "من قطع المسافۃ البعیدہ فی المدۃ القلیلۃ وظھور الطعام و الشراب و اللباس عند الحاجۃ و المشی علی الماء و الطیران فی الھواء  و اندفاع المتوجہ من البلاء و کفایۃ المھم عن الاعداء و غیر ذلک من الاشیاء" یعنی ولی کو یہ قدرت حاصل ہوتی ہے کہ لمبی مسافت تھوڑی مدت میں طے  کر لے  ضرورت کے وقت کھانا ،پینا ،لباس مہیاکر لے ۔پانی پر چلے ،ہوا پر اڑے اور بلا میں گرفتار کو نجات دلائے  اور دشمنوں کی جانب سے در پیش مشکلوں کو دور کر ے اس کے علاوہ اور بھی  بہت سی باتو ں کی قدرت حاصل ہو تی ہے (فتاوٰی شارح بخاری ،ج۲،ص۱۶۴۔۱۶۵)اس سے معلو م ہو ا کہ اللہ کے ولی جب چاہیں جس جگہ چاہیں تشریف لا سکتے ہیں" و اللہ اعلم و رسولہ اعلم "

  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء