حلال و حرام

07/19/2017 AZT-24472

حلال و حرام


السلام علیکم ! میری شادی کو سات سال ہوچکے ہیں میرے شوہر نے مجھے شادی کے 6 مہینے کے بعد 1.5 سال کے لیے اکیلا چھوڑ دیا تھا اس کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کی وجہ سے یو کے میں۔ اس دوران میں نے نوکری شروع کردی اپنے روزمرہ معمولات چلانے کے لیے۔ اس کے بعد وہ پاکستان آگیا کبھی جاب کی اور کبھی نہیں لیکن اس پورے وقت میں میری ذمہ داری نہیں سنبھالی۔ ان کے والد نے ریٹائیرمنٹ کے بعد اس کی تمام آمدنی کسی ادارے میں معین منافع پر لگا دیا۔ وہ اسی پیسے کو ہمارے اخراجات اور معاملات میں صرف کرتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ پچھلے سات سال سے میں حرام کھا رہی ہوں بالواسطہ یا بلا واسطہ۔ میں اپنے شوہر سے کئی بار تقاضا کرچکی ہوں کہ اپنے والد کے ساتھ اس معاملے کو حل کریں۔ لیکن اس نے کوئی حل نہیں کیا۔ مجھے مکمل راہنمائی چاہیے اپنے بارے میں کہ بحیثیت بیوی مجھے کیا کرنی چاہیے۔ میں اس حرام مال میں مزید حصہ دار نہیں بننا چاہتی لیکن بد قسمتی سے میں اور بچوں اس کو کھانے پر مجبور ہیں۔ کیا حلال کھانا اس نکاح کو باقی رکھنے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے جس کی وجہ سے بار بار حرام میں مبتلا ہورہی ہوں۔ (نور فاطمہ ، بفرزون نارتھ کراچی)

الجواب بعون الملك الوهاب

صورت مسئولہ مین  آپ طلاق لے لیں ۔کیونکہ حلال کھانا  اور حرام سے بچنا فرض ہے اور حلال کھانا مذکورہ نکاح کو باقی رکھنے سے ذیادہ اہم ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوۡا مِمَّا فِی الۡاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ۫ۖ وَّلَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِؕ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ﴿۱۶۸﴾

اے لوگوں کھاؤ جو کچھ زمین میں  حلال پاکیزہ ہے اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔                                                                                                                    (سورۃالبقرہ:آیۃ۱۶۱)

اسی طرح اللہ تعالیٰ تبارک واتعالیٰ کا فرمان ہے

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَاشْکُرُوۡا لِلہِ اِنۡ کُنۡتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوۡنَ﴿۱۷۲﴾

اے ایمان والو کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور اللّٰہ کا احسان مانو اگر تم اسی کو پوجتے ہو ۔       (سورۃالبقرہ:آیۃ۱۷۲)

اسی طرح اللہ عزو جل کا ارشاد مبارک ہے

فَکُلُوۡا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللہُ حَلٰلًا طَیِّبًا ۪ وَّ اشْکُرُوۡا نِعْمَتَ اللہِ اِنۡ کُنۡتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوۡنَ ﴿۱۱۴﴾

تو اللہ کی دی ہوئی روزی حلال پاکیزہ کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو اگر تم اسے پوجتے ہو۔                                         (سورۃالنحل:آیۃ۱۱۴)

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی ہے

اَلَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا کَمَا یَقُوۡمُ الَّذِیۡ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیۡطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوۡۤا اِنَّمَا الْبَیۡعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ سالرِّبٰواؕ فَمَنۡ جَآءَہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ فَانۡتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَؕ وَاَمْرُہٗۤ اِلَی اللہِؕ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ ہُمْ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۲۷۵﴾

وہ جو سُود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنادیاہویہ اس لئے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سُود ہی کے مانند ہے اور اللّٰہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سُود تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا  اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جو اب ایسی حرکت کرے گا وہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں گے۔                                                 (سورۃ البقرہ:آیۃ ۲۷۵)

مذکورہ آیات سے معلوم ہواکہ ہر انسان خواہ مرد ہو یا عورت اس پر حلال کھانااور حرام (سود وغیرہ )سے اجتناب کرنا فرض ہے ۔

اسی طرح   احادیث مبارکہ میں رزق حلال کھانے  کا حکم اور رزق حرام کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے ۔ان میں دواحادیث درج ذیل ہیں :

(1)… حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا: یارسول اللہ!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، دعا فرمائیے کہ اللہ  تعالیٰ مجھے مُستجَابُ الدَّعْوات کردے یعنی میری ہر دعا قبول ہو۔ حضور پر نور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اے سعد! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ،اپنی خوراک پاک کرو، مستجاب الدعوات ہوجاؤ گے۔ اس ذات پاک کی قسم جس کے دستِ قدرت میں محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی جان ہے آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں کیا جاتا اور جس بندے کا گوشت سود اور حرام خوری سے اُگا اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔ (معجم الاوسط، من اسمہ محمد،  ۵/۳۴، الحدیث: ۶۴۹۵)

(3)… حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے ،حضور اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’دنیا میٹھی اور سرسبز ہے، جس نے اس میں حلال طریقے سے مال کمایا اور اسے وہاں خرچ کیا جہاں خرچ کرنے کا حق تھا تو اللہ تعالیٰ اسے(آخرت میں ) ثواب عطا فرمائے گا اور اسے اپنی جنت میں داخل فرمائے گا اور جس نے دنیا میں حرام   طریقے سے مال کمایا اور اسے ناحق جگہ خرچ کیا تو اللہ تعالیٰ اسے ذلت و حقارت کے گھر (یعنی جہنم)  میں داخل کردے گا اور اللہ  تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ  کے مال میں خیانت کرنے والے کئی لوگوں کے لئے قیامت کے دن جہنم ہوگی۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:

کُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰہُمْ سَعِیۡرًا(بنی اسرائیل: ۹۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:جب کبھی بجھنے لگے گی تو ہم اسے اور بھڑکا دیں گے۔

(شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان،  ۴/۳۹۶، الحدیث: ۵۵۲۷)

          ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ حلال روزی کمائے اور حلال روزی سے ہی کھائے اور پہنے اسی طرح دوسروں کو بھی جو مال دے وہ حلال مال میں سے ہی دے ۔ہمارے بزرگان دین رزق کے حلال ہونے میں کس قدر احتیاط کرتے تھے ا س کی ایک جھلک ملاحظہ کیجئے ،چنانچہ ایک بار امیرالمؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَاللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا غلام آپ کی خدمت میں دودھ لایا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے پی لیا ۔ غلام نے عرض کی، میں پہلے جب بھی کوئی چیز پیش کرتا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ا س کے بارے میں دریافت فرماتے تھے لیکن اِس دودھ کے بارے میں کچھ دریافت نہیں فرمایا؟ یہ سن کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پوچھا، یہ دودھ کیسا ہے؟ غلام نے جواب دیا کہ میں نے زمانۂ جاہلیت میں ایک بیمار پر منتر پھونکا تھا جس کے معاوضے میں آج اس نے یہ دودھ دیا ہے ۔ حضرت صدیق اکبررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے یہ سن کر اپنے حلق میں اُنگلی ڈالی اور وہ دودھ اُگل د یا ۔ اِس کے بعد نہایت عاجزی سے دربارِ الٰہی میں عرض کیا ،’’ یااللہ! عَزَّوَجَلَّ، جس پر میں قادر تھا وہ میں نے کر دیا ، اس دودھ کا تھوڑا بہت حصہ جو رگوں میں رہ گیا ہے وہ معاف فرما دے۔(منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ، تقوی الاعضاء الخمسۃ، الفصل الخامس، ص۹۷)

(صراط الجنان :ج۱،ص۲۶۸،۲۶۹)

لہٰذا صورت مسئولہ مین  آپ طلاق لے لیں ۔کیونکہ حلال کھانا  اور حرام سے بچنا فرض ہے اور حلال کھانا مذکورہ نکاح کو باقی رکھنے سے ذیادہ اہم ہے ۔واللہ تعالیٰ اعلم و رسولہ اعلم

  • مفتی محمد سیف اللہ باروی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء