(مساجد کی تعمیر کے لئے سود پر قرضہ جات لینے کا حکم)

07/05/2017 AZT-24438

(مساجد کی تعمیر کے لئے سود پر قرضہ جات لینے کا حکم)


سود کے بارے میں قران و سنت کے واضح احکامات کے باوجود بنکوں سے مساجد کی تعمیر کے لئے سود پر قرضہ جات لئے جا سکتے ہیں کہ نہیں ؟ دوسرے سود پر قرضہ لے کر تعمیر شدہ مسجد میں نماز پڑھی جا سکتی ہے کہ نہیں؟ تیسرے کیا ایسی کسی مسجد کو قرضہ اور سود کی اقساط کی ادائگیاور دیگر اخراجات کے لئےچندہ دیا جا سکتا ہے؟ کیا ایسی مسجد میں تنخواہ پر ملازمت کی جا سکتی ہے؟ عموما یورپ میں کہا جاتا ہے کہ اس کے بضیر مسجد کی تعمیر ممکن نہیں، کیا یہ عزر قا بل، قبول ہے؟ (مقبول الہی، آسلو، ناروے)

الجواب بعون الملك الوهاب

(1)دار  الاسلام میں نہیں  لئے جا سکتے ہیں۔ہاں دار الحرب (ناروے وغیرہ )میں لیناجائز ہے

(2) ہاں نماز پڑھی جا سکتی۔

اس طرح کےایک سوال کےجواب اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری بریلوی ی علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتے ہیں ۔

اور اگر مسجد یا تا لا ب بنایا تو اس میں نماز اور اس سے وضو وغیرہ و شرب جائز ہے (فتاوٰی رضویہ:ج۲۳،ص۵۴۲)

(4) ہاں چندہ دیا جا سکتا ہے۔

5)) ہاں ملازمت کی جا سکتی ہے۔

(5)ہاں یہ عذر قابل ِقبول ہے۔ بلکہ دار الحرب میں سود لیناجائز ہے۔کونکہ سود مسلمانوں کے درمیان ہوتا ہے ۔مسلمان اور کافر کے درمیان دار الحرب میں سود نہیں ہے ۔

  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء