میزان بینک کار اجارہ کے ذریعہ کا رلے سکتے ہیں
میزان بینک کار اجارہ کے ذریعہ کا رلے سکتے ہیں
الجواب بعون الملك الوهاب
ہاں لے سکتے ہیں ۔کیونکہ میزان بینک سے کار اجارہ کے ذریعہ کا رلےنے میں کوئی قباہت نہیں ہے ۔”اسلامی اس لئے کہ اسلامی بنک درج ذیل طریقے اختیار کرتے ہیں۔ اور ان بنکوں سے وابستہ علمائے کرام کہتے ہیں کہ ان طریقوں میں سود شامل نہیں ہوتا۔
(۱)بنک کہتا ہے کہ آپ ہم سے قرضہ نہ لیں بلکہ ہم سے براہ راست گاڑی خریدیں۔ مثلااگر آپ کوئی مخصوص گاڑی ہم سے نقد خریدیں گے تو ہم آپ کو مارکیٹ کی قیمت میں فروخت کریں گے۔ اگر ادھار یا قسطوں پر خریدیں گے تو یہ مارکیٹ قیمت سے اتنے فیصد زائد قیمت کی ہوگی۔ اور شریعت میں ایک ہی چیز الگ الگ قیمتوں میں فروخت کی جاسکتی ہے۔ نقد کی قیمت الگ ہوتی ہے ، ادھار کی قیمت الگ ہوتی ، قسطوں کی قیمت الگ ہوتی ، کمپنی سے خریدنے کی صورت میں الگ ،شو روم سے خریدنے کی صورت میں الگ اور ہوم ڈیلیوری
کی صورت الگ۔
(۲) بنک کہتا ہے کہ ایک گاڑی کی قیمت دس لاکھ ہے۔ اگر آپ پوری گاڑی ایک ساتھ نہیں خرید سکتے تو اسے ۵۰قسطوں میں خرید لیجئے۔ ہم گاڑی کی مارکیٹ قیمت کے ۵۰حصص بنا دیتے ہیں۔ ایک حصہ ۲۰۰۰۰ روپے کا ہوگا۔ آپ بیس بیس ہزار روپے کی قسطیں دیتے جائیے۔ جب آپ پوری ۵۰ قسط اداکر لیں گے تو گاڑی آپ کی مکمل ملکیت میں ہوگی۔ اس ترتیب سے
۱۔ پہلی قسط کی ادائیگی پر آپ کی ملکیت ایک حصہ ۔۔۔ بنک حصص ۴۹
۲۔ دسویں قسط کی ادائیگی پر آپ کی ملکیت ۱۰حصص ۔۔۔ بنک حصص ۴۰
۳۔ ۲۰ ویں قسط کی ادائیگی پر آپ کی ملکیت ۲۰حصص ۔ بنک حصص ۳۰
4۔ ۵۰ویں قسط کی ادائیگی پر آپ پوری گاڑی کے مالک ہوجائیں گے ۔
اب اگر آپ چاہیں تو پہلی قسط دے کر گاڑی اپنے استعمال میں بھی رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اس صورت میں آپ کو گاڑی کا کرایہ دینا ہوگا۔ پوری گاڑی (۵۰ حصص) کا ماہانہ کرایہ (مثلاً) ۵۰ روپے ہوگا۔ چونکہ آپ گاڑی کے۔ حصہ کے مالک ہیں اور بنک ۴۹حصہ کے اس لئے پہلے ماہ آپ کو ۴۹روپے کرایہ ادا کرنا ہوگا (گاڑی کی قسط کے علاوہ)۔ دسویں ماہ آپ کو بنک کے ۴۰حصص کا کرایہ ۴۰روپے، ۴۹ویں ماہ صرف ۱ ۔روپے، ۔ اس صورت میں بھی سود کا کہیں عمل دخل نہیں ہوتا۔
واللہ اعلم بالصواب