موذی جانداروں کو مار ڈالنےکا حکم
موذی جانداروں کو مار ڈالنےکا حکم
از: عمر حسنؔ، ہیوسٹن ،ٹیکساس ، امریکہ کیا فرماتے ہیں علمآء إکرام اس معاملے میں کے شریعت میں جن موذی جانوروں کو مارڈالنے کا حکم ہے مثلاً سانپ، چھپکلی اور چوہا؛ ان میں کئ اقسام ہیں۔ اور بعض اقسام ہیں جو نقصان دے نہیں ہیں۔ مثلاً گھانس کا سانپ (گراس اسنیک)، یہ سانپ گھانس میں رہتا ہے اور ہرے رنگ کا ہوتا ہے اس میں زہر نہیں ہوتا اور یہ انسانوں کو ضرر نہیں دیتا، یہ کیڑے مکوڑوں کو کھاتا ہے۔ اسھی طرح شریعت نے مکڑی کو نہیں مارنے کا حکم دیا ہے، مگر مکڑی کی بہت سی اقسام ہیں اور ان میں بعض میں زہر ہوتا ہے کہ اگر انسان کو دنگ ماردے تو انسان مر بھی سکتا ہے۔ ایسے میں ان جانوروں کو مارنے میں کوئی تخصیص ہے یا نہیں؟ اگر شریعت نے سانپ کو مارنے کا حکم دیا ہے تو کیا تمام قسم کے سانپ کو مارڈالا جائےگا؟ اور اگر شریعت نے مکڑی کو نہ مارنے کا حکم دیا ہے تو کیا تمام قسم کی مکڑی کو نہیں مارا جائےگا؟ بینوا و توجروا۔ (عمر حسن، ہاؤسٹن ٹیکساس، امریکہ)
الجواب بعون الملك الوهاب
جو جاندار موذی ہیں ان کو مار ڈالنےکا حکم ہےخواہ وہ جانوروں میں سےہوں جیسے بولاکتا،یا پرندوں میں سے ہوں جیسے چیل،یاحشرات الارض میں سے ہوں جیسے بچھو۔اور جو جاندار موذی نہیں ہےانہیں مارنا جائز نہیں ہے خواہ وہ جانوروں میں سے ہوں جیسے بلی ،یا پرندوں میں سےہوں جیسے کوئل یا وہ حشرات الارض میں سے ہوں جیسے گلہری۔
لہٰذا:سانپ کی اکثر اقسام موذی ہیں،اس لیئےانہیں مارڈالنے کا حکم ہے اور بعض اقسام موذی نہیں، انہیں نہیں مارا جائے گا ۔اور مکڑی کی اکثر اقسام موذی نہیں، اس لیئےانہیں نہ مارنےکا حکم ہے ،اوربعض اقسام موذی ہیں، انہیں مارنا درست ہے،اورچھپکلی ,چیل اور چوہے کی جملہ اقسام موذی ہیں اس لئے ان سب کو مار ڈلنےکا حکم ہے۔
حدیث پاک میں ہے:
فَحَدَّثَهُ أَبُو لُبَابَةَ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ قَتْلِ جِنَّانِ البُيُوتِ، فَأَمْسَكَ عَنْهَا
پھر ان سے ابولبابہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں کے پتلے یا سفید سانپوں کو مارنے سے منع فرمایا ہے تو انہوں نے مارنا چھوڑدیا
فَلَقِيتُ أَبَا لُبَابَةَ، فَأَخْبَرَنِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لاَ تَقْتُلُوا الجِنَّانَ، إِلَّا كُلَّ أَبْتَرَ ذِي طُفْيَتَيْنِ، فَإِنَّهُ يُسْقِطُ الوَلَدَ، وَيُذْهِبُ البَصَرَ فَ
پھرمیری ملاقات ایک دن ابولبابہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی ، تو انہوں نے مجھے خبردی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کہ پتلے یا سفید سانپوں کو نہ مارا کرو ۔ البتہ دم کٹے ہوئے سانپ کو جس پر دو سفید دھاریاں ہوتی ہیں اس کو مارڈالو ، کیونکہ یہ اتنا زہریلا ہے کہ حاملہ کے حمل کو گرادیتا ہے اور آدمی کو اندھا بنادیتا ہے ۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ الأَبْتَرِ وَقَالَ: «إِنَّهُ يُصِيبُ البَصَرَ، وَيُذْهِبُ الحَبَل
ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا ، ان سے ہشام نے بیان کیا ، ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دم بریدہ سانپ کو مارڈالنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ آنکھوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور حمل کو ساقط کردیتا ہے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خمسٌ فواسقٌ يُقتلْنَ في الحلِّ والحرمِ : الحيةُ ، والغرابُ الأبقعُ ، والفارةُ ، والكلبُ العقورُ ، والحُدَيَّا(صحيح مسلم:1198
ترجمہ: پانچ موذی (جا ندار ) ہیں ۔حل وحرم میں (جہاں بھی مل جا ئیں ) مار دئے جا ئیں۔ سانپ ،کوا (جس کے سر پر سفید نشان ہو تا ہے) چوہا ،پاگل کتا اور چیل ۔
اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِ الْوَزَغِ وَسَمَّاهُ فُوَيْسِقًا‘‘
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’چھپکلی‘ کو قتل کرنے کا حکم دیا اور اسے ’فاسق“ قرار دیا ہے۔
(صحیح مسلم، کتاب السلام، باب استحباب قتل الوزغ)
ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں:
’’أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِ الْوَزَغِ وَقَالَ كَانَ يَنْفُخُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام‘‘
اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ’چھپکلی‘ کو قتل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے جلائی آگ میں پھونکیں مارتی تھی۔
(صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول اللہ تعالی واتخذ اللہ ابراھیم خلیلا)
اوربعض روایات میں ’چھپکلی‘ کو قتل کرنے کے بارے میں اجر وثواب کا بھی تذکرہ آیا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم و رسولہ اعلم