عشاء کے بعد گلیوں میں مائک پر محافل نعت و بیان کرنے میں علماء کے مختلف آراء

03/18/2019 AZT-27185

عشاء کے بعد گلیوں میں مائک پر محافل نعت و بیان کرنے میں علماء کے مختلف آراء


عشاء کے بعد گلیوں میں مائک پر محافل نعت و بیان کرنے میں کیا علماء کے مختلف آراء ہیں کیوں کہ اس سے چھوٹے بچوں کی نیند وغیرہ کا مسئلہ بھی ہوسکتا ہے؟

الجواب بعون الملك الوهاب

گلیوں  میں مائیک کااستعمال  عام طور پر لوگوں کے لیے پریشانی ، ایذاء اورتکلیف کا باعث بنتاہے۔ لہٰذمائیک کی آواز کو محفل کے  مجمع تک محدود رکھا جائے،اس  سے زائد آواز  رکھنا جائز نہیں  ہے ۔تاکہ قریب میں جو لوگ سو  رہے ہوں یا اپنےذاتی کاموں میں مشغول ہوں ان کی نیند  اور کاموں میں خلل نہ آئے۔ اور بوڑھوں ،بچوں اوربیمارحضرات کوتکلیف  نہ پہنچے۔

 چنانچہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہماسے مروی ہے کہ حضرت ام المئومنیں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کے گھر کے باہر ایک واعظ بیان کیا کرتا تھا جس کی آواز سے آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کو تکلیف ہوتی تھی  اور دوسروں کی  آواز سنائی نہ دیتی تھی۔آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا نے حضرت امیر المئومنیں عمر فاروق اعظم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو پیغام بھیج کر اس بات کی شکایت کی ۔حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے اس واعظ کو اس فعل سے منع فرمایا جس پر وہ وقتی طور پر بازآیا  گیا لیکن چند دنوں بعد دوبارہ وہی سلسلہ شروع کردیا۔اس پر آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ اپنا عصا لیکر اس واعظ کے پاس گئے اور مار مار کراس پر اپنا عصا توڑدیا۔(تاریخ المدینۃ المنورۃ ، ذکر القصص ، ۱/ ۱۵) اسی طرح  امام احمدبن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی مسند میں  نقل ہے کہ ایک مرتبہ امّ المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا نے مدینہ منورہ کے ایک واعظ وتبلیغ کے آداب تفصیل کے ساتھ بتائے اور ان آداب میں یہ بھی فر مایا کہ : ’’ اپنی آواز کو انہیں لوگوں کی حد تک محدود رکھو جو تمہاری مجلس اور محفل  میں بیٹھے ہیں او رانہیں بھی اسی وقت تک دین کی باتیں سناؤ جب تک ان کے چہرے تمہاری طرف متوجہ ہوں، جب وہ چہرے پھیر لیں، تو تم بھی رک جاؤ۔ اور ایسا کبھی نہ ہوناچاہئے کہ لوگ آپس میں باتیں کررہے ہوں ، او ر تم ان کی بات کاٹ کر اپنی بات شروع کردوبلکہ ایسے موقع پر خاموش رہو، پھر جب وہ تم سے فرمائش کریں تو انہیں دین کی بات سناؤ‘‘۔ ( مجمع الزوائد ، ج:1، ص:191) اسی طرح مشکوٰۃ شریف میں روایت ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر فاروق اعظم کے پاس سے گذرے اور وہ تہجد کی نماز میں بلند آواز سے تلاوت کررہے تھے، حضرت عمر نے جواب دیا کہ میں ’’ سوتے کو جگا تا ہوں اور شیطان کو بھگاتا ہوں‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی آواز کو تھوڑا اپست کردو‘‘۔ (مشکوۃ،ج1ص:107) اورمُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الرحمٰن سمجھاتے ہوئے لکھتے ہیں: وہ واعظین عبرت پکڑیں جو تیز لاؤڈسپیکروں پر آدھی آدھی رات تک تقریریں کرکے مزدوروں،بیماروں کو پریشان کرتے ہیں،ساری بستی کو جگاتے ہیں۔دیکھا گیا ہے کہ پھرعوام حکومت کو درخواستیں دیتے ہیں جس پر دفعہ144 نافذ کی جاتی ہے،کتنی بڑی ذلت اور علم کی توہین ہے۔ اگر یہ واعظین اس فرمان پرعمل کرتے تو یہ نوبت کیوں آتی،حکام اور افسران خود ان سے عِلْم سیکھنے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ (مراٰۃ المناجیح،۱/۲۱۷)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ مائیک  کی آواز کو محافل اور دیگر پروگراموں کےمجمع تک محدود رکھا جائے ۔ اس سے زائد آواز نہ رکھی جائے  ۔

واللہ تعالیٰ اعلم  رسولہ اعلم

  • مفتی محمد سیف اللہ باروی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء