سرکار ﷺکے مزار مبارک پر رخسار رکھنا
سرکار ﷺکے مزار مبارک پر رخسار رکھنا
الجواب بعون الملك الوهاب
یہ حدیثِ مبارکہ المستد رک علی الصحیحن للحاکم، المستد رک علی الصحیحن للنیشابوری ، اور مسند احمد بن حنبل ان تینوں کتب حدیث میں موجود ہے ،اور امام حاکم نے اس حدیث کواپنی مستدرک میں نقل کرنے کے بعدکہا کہ یہ حدیث صحیح الاسنادہےاگرامام بخاری اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیھما نے اس حد یث کو اپنی صحیحین میں ذکرنہیں فرمایا ،اور امام ذھبی نے بھی اس حدیث کو صحیح فرمایا ہے ۔اور حدیث کے الفاظ درجذیل ہے۔
حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب ثنا العباس بن محمد بن حاتم الدوري ثنا أبو عامر عبد الملك بن عمر العقدي ثنا كثير بن زيد عن داود بن أبي صالح قال : أقبل مروان يوما فوجد رجلا واضعا وجهه على القبر فأخذ برقبته و قال : أتدري ما تصنع ؟ قال : نعم فأقبل عليه فإذا هو أبو أيوب الأنصاري رضي الله عنه فقال : جئت رسول الله صلى الله عليه و سلم و لم آت الحجر سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : لا تبكوا على الدين إذا وليه أهله و لكن ابكوا عليه إذا وليه غير أهله
هذا حديث صحيح الإسناد و لم يخرجاه
تعليق الذهبي قي التلخيص : صحيح
(المستد رک علی الصحیحن للحاکم:ج۷،ص۱۰۱حدیث8571، المستد رک علی الصحیحن للنیشابوری : ج۴،ص۵۶۰، مسند احمد بن حنبل حدیث ابی ایوب الانصاری دارالفکر بیروت ۵/ ۴۲۲)
اور فتاوٰ ی رضویہ میں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت اما م احمد رضا خان قادری ، بریلوی علیہ رحمۃ القوی نے بھی اس حدیث مبارکہ کو نقل فرمایا ہے ۔
اور تعظیم رُوح اور تعظیم قبر میں فرق نہ کرنا سخت جہالت ہے، عارف نابلسی کاا رشاد گزرا، اور امام سمہودی فرماتے ہیں: لیس القصد تعظیم بقعۃ القبر بعینھا بل من حل فیھا ۳؎ ۔ خاص زمین قبرکی تعظیم مقصود نہیں بلکہ اس کی تعظیم مقصود ہے جو اس میں فروکش ہے ۔
(۳؎ وفاء الوفاء الفصل الثانی من الباب الثامن داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/ ۱۳۶۶)
بلکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ علیہ مسند شریف میں بسند حسن روایت فرماتے ہیں: اقبل مروان یوما فوجد رجلا واضعا وجہہ علی القبر فاخذ مروان برقبتہ ثم قال ھل تدری ماتصنع فاقبل علیہ فقال نعم انی لم اٰت الحجر انما جئت رسول ا ﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ولم اٰت الحجر سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یَقُولُ لاَتَبْکُوْا عَلَی الدِّیْنِ اِذَا وَلِیَہ اَھْلُہ وَلٰکِنْ اِبْکُوْا عَلَی الدِّیْنِ اِذَا وَلِیَہ غَیْرُ اَھْلِہٖ۔ ۴؎ یعنی مروان نے اپنے زمانہ تسلط میں ایک صاحب کو دیکھا کہ قبر اکرم سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہیں مروان نے ان کی گرد ن مبارک پکڑ کر کہا: جانتے ہو کیا کررہے ہو؟ اس پر ان صاحب نے اس کی طر ف متوجہ ہوکر فرمایا: ہاں میں سنگ وگِل کے پاس نہیں آیا ہوں میں تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے حضور حاضر ہو ا ہوں ، میں اینٹ پتھر کے پاس نہ آیا، میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو فرماتے سنا دین پر نہ رؤو جب اس کا اہل ا س پر والی ہو ، ہاں اس وقت دین پر رؤو جبکہ نااہل والی ہو۔
(۴؎ ،مسند احمد بن حنبل حدیث ابی ایوب الانصاری دارالفکر بیروت ۵/ ۴۲۲)
یہ صحابی سیدنا ابو ایّوب انصاری تھے رضی اﷲ تعالٰی عنہ__ تو تعظیم قبر وروح مطہر میں فرق نہ کرنا مروان کی جہالت اور اسی کے ترکہ سے وہابیہ کو پہنچی ، اور تعظیم قبر سے جدا ہو کر تعظیم روح کریم کی برکت لینا صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم کی سنت ہے۔ اورا ہلسنت کوان کی میراث ملی، وﷲ الحمد۔
(فتاوٰی رضویہ :ج۹،ص۱۲۰)
واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم