شبّ ِبراءت میں آتشبازی کا حکم

04/30/2018 AZT-26227

شبّ ِبراءت میں آتشبازی کا حکم


شبِ براءت مین مروّجہ آتشبازی(یعنی پٹاخے پھوڑنےاورپھلجھڑیا وغیرہ چھوڑنے) کا کیا حکم ہے ؟قاری محمد اکرم میانوالی ۔

الجواب بعون الملك الوهاب

شبِ براءت کی مروّجہ آتشبازی فضول خرچی ،حرام اور پوراپورا جرم ہے ۔اور اسی طرح آتش بازی کابنانا ،بیچنا اورخریدبھی شرعاًممنوع ہیں

چنانچہ فتاوٰی رضویہ میں ہے:

آتشبازی جس طرح شادیوں اور شب برأت میں رائج ہے بیشک حرام اور پوراجرم ہے کہ اس میں تضییع مال ہے۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی فرمایا۔

قال اﷲ تعالٰی لا تبذر تبذیرا o ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین o وکان الشیطان لربہ کفورا o۴؎

اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: کسی طرح بے جا نہ خرچ کیا کرو کیونکہ بے جا خرچ کرنیوالے شیاطین کے بھائی ہوتے ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بہت بڑا ناشکر گزار ہے۔

رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:  ان اﷲ تعالٰی کرہ لکم ثلثا قیل وقال واضاعۃ المال وکثرۃ السوال، رواہ البخاری ۵؎ عن المغیرۃ بن شعبۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

بے شک اللہ تعالٰی نے تمھارے لئے تین کاموں کو ناپسند فرمایا: (۱) فضول باتیں کرنا (۲) مال کو ضائع کرنا (۳)

بہت زیادہ سوال کرنا اور مانگنا، امام بخاری نے اس کو حضرت مغیرہ بن بن شعبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے (ت)

 (۴؎ القرآن الکریم                        ۱۷/ ۲۶ و ۲۷)

 (۵؎ صحیح البخاری     کتاب الزکوٰۃ با ب قول اللہ تعالٰی لا یسئلون الناس الحافا      قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۲۰۰ و ۲/ ۸۸۴)

(صحیح مسلم     کتاب الاقضیۃ باب النہی عن کثرۃ المسائل   قدیمی کتب خانہ کراچی      ۲/ ۷۵ و ۷۶)

 

شیخ محقق مولٰنا عبدالحق محدث دہلوی ماثبت بالسنۃ میں فرماتے ہیں: من البدع الشنیعۃ ماتعارف الناس فی اکثر بلاد الہند من اجتماعھم للھو واللعب بالنار، واحراق الکبریت ۱؎ اھ مختصرا۔

بری بدعات میں سے یہ اعمال ہیں جو ہندوستان کے زیادہ تر شہروں میں متعارف اور رائج ہیں جیسے آگ کے ساتھ کھیلنا اور تماشہ کرنے کے لئے جمع ہونا گندھک جلانا وغیرہ اھ مختصرا

(۱؎ ماثبت بالسنۃ ذکر شہر شعبان     المقالۃ الثالثۃ ادارہ نعیمیہ رضویہ موچی گیٹ لاہور    ص۲۸۲)

(فتاوٰی رضویہ :ج۲۳،ص۲۷۹)

اسی طرح  ایک اور سوال کےجواب میں فتاوٰرضوہ میں ہے :

( آتَشبازی بنانا اور چھوڑنا)ممنوع وگناہ ہے مگر(یعنی البتَّہ)جو صورت خاصہ لَہْو ولَعْب وتَبْذِیرواِسراف سے خالی ہو(یعنی اُن مخصوص صورتوں میں جائز ہے جو کھیل کود اور فُضُول خرچی سے خالی ہو)، جیسے اعلانِ ہلال(یعنی چاند نظر آنے کا اعلان)یا جنگل میں یا وقتِ حاجت شَہر میں بھی د فعِ جانورانِ موذی(یعنی ایذا دینے والے جانوروں کو بھگانے کیلئے)یاکھیت یا میوے کے درختوں سے جانوروں(اور پرندوں)کے بھگانے اُڑانے کو ناڑِیاں،پَٹاخے،تُو مڑیاں چھوڑنا۔                  (فتاوٰی رضویہ ج۲۳ص۲۹۰)

اورفتاوٰی اجملیہ میں ہے :

(شبِ براءَ ت کی مُرَوَّجہ)آتش بازی کا چھوڑنا بلاشک اِسراف اورفُضُول خرچی ہے لہٰذا اِس کا ناجائز وحرام ہونا اور اسی طرح آتش بازی کابنانا اور بیچنا خریدنا سب شرعاًممنوع ہیں۔ (فتاوی اجملیہ ج۴ص۵۲)

اور اسلامی زندگی میں ہے:

افسوس! شبِ براء ت میں ''آتَشبازی''کی ناپاک رسْم اب مُسلمانوں کے اندر زور پکڑتی جارہی ہے۔''اسلامی زندگی ''میں ہے:مسلمانوں کالاکھوں روپیہ سالانہ اس رسم میں برباد ہو جاتا ہے اور ہر سال خبریں آتی ہیں کہ فُلاں جگہ سے اِتنے گھر آتَشبازی سے جَل گئے اور اتنے آدمی جل کرمر گئے۔ اس میں جان کا خطرہ، مال کی بربادی اورمکانوں میں آگ لگنے کا اندیشہ ہے،(نیز)اپنے مال میں اپنے ہاتھ سے آگ لگانا اور پھر خدا تعالیٰ کی نافرمانی کا وبال سر پر ڈالنا ہے، خدا عَزَّوَجَلَّ کیلئے اس بیہودہ اور حرام کام سے بچو، اپنے بچّوں اورقَرابت داروں کو روکو، جہاں آوارہ بچّے یہ کھیل کھیل رہے ہوں وہاں تماشا دیکھنے کیلئے بھی نہ جاؤ۔ (اسلامی زندگی ص۷۸)

واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم

  • مفتی محمد سیف اللہ باروی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء