اذان مسجد کے اندر دینے کا حکم
اذان مسجد کے اندر دینے کا حکم
برائے مہربانی حوالے کے ساتھ جواب دیں کہ اذان مسجد کے اندر دینا جائز ہے یا نہیں؟ خاص طور پر جمعہ کی دوسری اذان۔
الجواب بعون الملك الوهاب
(1): اذان سے مقصود مسجد سے باہر لوگوں کو نماز کی طرف بلانا ہوتا ہے نہ کہ مسجد میں پہلے سے موجود لوگوں کو کیونکہ وہ پہلے ہی مسجد میں بیٹھے ہیں دوبارہ بلانے کا کیا فائدہ؟ (2): مسجد کے اندر بلند آواز سے بولنا، آواز لگانا اور پکارنا منع ہے جیسا کہ ابن ماجہ کی حدیث ہے[ابن ماجہ، کتاب المساجد، باب ما یکرہ فی المسجد، جلد 1، صفحہ 237، دار احیاء الکتب العربیۃ بیروت]۔ اور اذان بلند آواز سے دی جاتی ہے اور بلند آواز مسجد میں منع ہے۔ (3): رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اور صحابہ کے دور میں کبھی بھی اذان مسجد کے اندرنہیں ہوئی۔
ان وجوہات کی بنیاد پر یہ حکم ہے کہ اذان مسجد کے باہر دی جائے اور مسجد کے اندر اذان دینا منع اور مکروہ ہے۔
امام ابن ہمام نے فرمایا: الْأَذَانُ فَعَلَى الْمِئْذَنَةِ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَفِي فِنَاءِ الْمَسْجِدِ وَقَالُوا لَا يُؤَذَّنُ فِي الْمَسْجِدِ. ترجمہ: اذان منارہ پر دی جائے، اگر وہ نہ ہوتو فنائے مسجد میں دینی چاہئے اور فقہا نے بیان کیا ہے کہ مسجد میں اذان نہ دی جائے۔[فتح القدیر، کتاب الصلاۃ، باب الاذان، جلد 1، صفحہ 246، مطبوعہ دار الفکر، بیروت]۔
حاشیہ طحطاوی علی المراقی میں ہے: يكره أن يؤذن في المسجد كما في القهستاني عن النظم. ترجمہ: مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے جیسا کہ یہ قہستانی نے نظم سے نقل کیا۔ [ حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح، کتاب الصلاۃ، باب الاذان، جلد 1، صفحہ 197، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروتٍٍ]۔
اور جمعہ کی دوسری اذان بھی مسجد کے باہر امام کے بالکل سامنے دینی چاہئے۔ سنن ابی داود میں ہے: عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: كَانَ يُؤَذَّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ. ترجمہ: سائب بن یزید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے فرمایا جب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر تشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان ہوتی اور ایسا ہی ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے زمانے میں۔[سنن ابی داود،کتاب الصلاۃ، ابواب الجمعہ، باب النداء یوم الجمعہ، جلد 1، صفحہ 285، حدیث(1088)، المکتبۃ العصریۃ، صیدا، بیروت]۔