پرائز بونڈ حلال یا حرام
پرائز بونڈ حلال یا حرام
الجواب بعون الملك الوهاب
پرائز بونڈخریدنا اوران پر ملےوالی انعامی رقم لیناشرعاجائز اور حلال ہے ۔
اس طرح کے ایک سوال کے جواب میں حضرت علامہ مفتی محمدوقارالدین قادری رضوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتےہیں ۔
پچاس روپے،سوروپے،پانچ سو روپےیا ایک ہزار روپے کے پرائزبانڈز خریدنا اور ان پر انعام لینا جائز ہے ۔شریعت نے حرام مال کی کچھ صورتیں مقرر کی ہیں جو یہ ہیں
(۱)کسی کا مال چوری ، غصب،ڈکیتی یا رشوت کے ذریعےلیا جائے۔(۲)جوئے میں مال حاصل کیا جائے ۔(۳)سود میں لیا جائے ۔(۴)اور یہ کہ بیع باطل میں قیمت لی جائے ۔
پرائز بانڈمیں ان کی ایک بھی صورت نہیں ہے اس لیے کہ جوئے میں اپنا مال چلا جاتا ہے یا زائد مل جاتا ہے اور پرائز بانڈمیں یہ صورت نہیں ہو تی ۔
سود کی تعریف یہ ہے "الزیادۃ المشروطۃ فی العقد" یعنی قرض دیتے وقت یہ طے کر لیا جائے کہ زیا دہ لو ٹائے گا ۔ربا کی تعریف مبسوط میں یہ کی گئی ہے "الرباھوالفضل الخالی عن العوض المشروط فی البیع "یعنی ربوٰ ا بدل سے خالی اس اضافے کو کہتے ہیں جو بیع کرتے وقت طے کر لیا جائے ۔(مبسوط :ج۱۲،ص۱۰۹،دار المعرفہ ،بیروت )
ان عبارات سے معلو م ہوا کہ قرض دیتے وقت زیادہ واپس کرنے کی شرط لگانے سے سود ہوتا ہے ورنہ نہیں ۔بانڈمیں ایسی کوئی شرط نہیں ہے لہذااس پر ملنے والے انعام کو سود کہنا غلط ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ انعامی بانڈمیں زیادت (اضافہ )مشروط نہیں ہے ۔لہذاسود نہیں ہے اور اپنے پیسے میں کمی نہیں ہو تی لہٰذاجوانہیں ہے اور لینے والا اپنی خوشی سے کچھ ذیادہ دے دے وہ جائز ہے اور اس کے لیے قرعہ اندازی کرنا بھی جائز ہے تو انعامی بانڈ کے نا جائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔(وقار الفتاوٰی :ج۱۔ص ۲۲۶تا۲۲۹ملخصا)واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم