گستاخ رسول کی سزا

04/20/2016 AZT-19066

گستاخ رسول کی سزا


(1 توہینِ رسالت سے کیا مراد ہے؟

2) گستاخ شخص کب قرار دیا جا سکتا ہے؟

3) توہین رسالت کرنے والے کی قرآن میں کیا سزا ہے؟

4) توہین رسالت کرنے والے کی صحیح الاسناد احادیث میں کیا سزا ہے؟

5) اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے سامنے توہین رسالت کرتا ہے تو کیا قرآن اور صحیح الاسناد احادیث کے مطابق دوسرے مسلمان کو  پہلے مسلمان جس نے توہین رسالت کی، قتل کی اجازت ہے؟

6)  اگر کوئی غیر مسلم کسی مسلمان کے سامنے توہین رسالت کرتا ہے تو کیا قرآن اور صحیح احادیث کے مطابق کوئی مسلمان اس غیر مسلم کا قتل کرسکتاہے؟

7)  اگر اس کوقتل کی اجازت دی جاتی ہے توکیا یہ ارتداد یا توہین رسالت کی بناء پر ہے؟

8)  کیا محدثین اور مؤرخین نے اس طرح کے توہین رسالت کے مستند واقعات کا سلسلہ جو کہ اسلام کے پہلے تین سو سالوں کے درمیان سلف وصالحین اور تبع تابعین کے وقتوں میں ہوا ہو، روایت کیا ہے؟ اور توہین رسالت کے مرتکب کو کیا سزا دی گئی ہے؟

برائے مہربانی اگر ممکن ہو تو انگلش اور اردو دونوں زبانوں میں جواب دیجئے۔ اور برائے مہربانی بڑے مفتی صاحب کا نام پوسٹل اور ای میل ایڈریس اور رابطے کے تمام نمبرکے ساتھ بھی لکھ دیجئے۔ اور مہربانی کرکے فتوے پر دفتری مہر لگا کر اسے ای میل کے ذریعے بھیج دیجئے۔ جزاک اللہ۔

الجواب بعون الملك الوهاب

(1): توہین رسالت کی تعریف:  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ یا جس چیز کی نسبت آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے  ہو گئی اس کی توہین کرنا یا عیب لگانا  توہینِ رسالت  ہے۔

صدر الشريعہ مفتی امجد علی اعظمی نے فرمایا: جو شخص حضور اقدس صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم کو تمام انبیا میں آخر نبی نہ جانے یا حضور (صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم) کی کسی چیز کی توہین کرے یا عیب لگائے، آپ کے موئے مبارک کو تحقیرسے یاد کرے، آپ کے لباس مبارک کو گندہ اور میلا بتائے، حضور (صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم) کے ناخن بڑے بڑے کہے یہ سب کفر ہے، بلکہ اگر کسی کے اس کہنے پر کہ حضور (صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم) کو کدو پسند تھا اور کوئی یہ کہے مجھے پسند نہیں تو بعض علما کے نزدیک کافر ہے اور حقیقت یہ کہ اگر اس حیثیت سے اُسے ناپسند ہے کہ حضور (صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم) کو پسند تھا تو کافر ہے۔ یوہیں کسی نے یہ کہا کہ حضور اقدس صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم کھانا تناول فرمانے کے بعد تین بار انگشت ہائے مبارک چاٹ لیا کرتے تھے، اس پر کسی نے کہا یہ ادب کے خلاف ہے یا کسی سنت کی تحقیر کرے، مثلاً داڑھی بڑھانا، مونچھیں کم کرنا، عمامہ باندھنا یا شملہ لٹکانا، ان کی اہانت کفر ہے جبکہ سنت کی توہین مقصود ہو۔[ بہار شریعت، جلد  2،حصہ 9،صفحہ 463،مطبوعہ المدینۃ العلمیۃ کراچی]۔

(2): کسی کو گستاخ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قرار دینے کیلئے درج ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے: 1): عقل مند ہونا۔ یعنی پاگل، مجنوں اور ناسمجھ بچے سے کوئی کلمہ کفر نکلا تو كافر یا گستاخ رسول نہیں کہیں گے۔ 2): ہوش میں ہونا۔ یعنی نشہ والے نے اگر کلمہ کفر کہا تو اس پر حکم کفر جاری نہ ہوگا ۔ 3): اختیار کے ساتھ کہنا۔ یعنی  مجبوری اور اکراہ کی صورت میں حکم کفر نہیں لگے گا۔

فتاوى عالمگیری میں ہے: وَشَرَائِطُ صِحَّتِهَا الْعَقْلُ فَلَا تَصِحُّ رِدَّةُ الْمَجْنُونِ وَلَا الصَّبِيِّ الَّذِي لَا يَعْقِلُ، وَكَذَا لَا تَصِحُّ رِدَّةُ السَّكْرَانِ الذَّاهِبِ الْعَقْلَ وَمِنْهَا الطَّوْعُ فَلَا تَصِحُّ رِدَّةُ الْمُكْرَهِ عَلَيْهَا . ترجمہ: حکم کفر کی شرائط میں سے ایک شرط عقل ہے  لہذٰا مجنوں اور نا سمجھ بچے کا   کفر معتبر نہیں ہے۔ اسی طرح نشہ والا شخص کہ جس کی عقل چلی گئی ہو اس کا کفر بھی معتبر نہیں۔ اسی طرح غیر اختیاری طور پر کہنے والا شخص۔لہذا جس پر اکراہ کیا گیا تو اس پر حکم کفر نہیں۔[ فتاوى عالمگیری، جلد  2،کتاب السیر،الباب الثامن،صفحہ 253،مطبوعہ دار الفکر بیروت لبنان]۔

(3): قرآن پاک میں توہین و گستاخِ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی سزا قتل ہے۔

قرآن پاک میں ہے: وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ () أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ () قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ. ترجمہ: اور اگر عہد کرکے اپنی قسمیں توڑیں اور تمہارے دین پر طعن کریں تو کفر کے سرغنوں سے لڑوبیشک ان کی قسمیں کچھ نہیں اس امید پر کہ شاید وہ باز آئیںکیا اس قوم سے نہ لڑو گے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑیں اور رسول کے نکالنے کا ارادہ کیا حالانکہ انہیں کی طرف سے پہل ہوئی ہے کیا ان سے ڈرتے ہو تو اللہ تعالی اسکا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرواگر ایمان رکھتے تو ان سے لڑواللہ انہیں عذاب دیگا تمہارے ہاتھوں اور انہیں رسوا کرے گا  اور تمہیں ان پر مدد دے گا اور ایمان والوں کا جی ٹھنڈا کرے گا ۔[ سوره توبہ، آیت : 12ـ14]۔

قرآن کا فرمان" فَقَاتِلُوا یعنی انکو قتل کرو"۔  واضح دلالت کر رہا ہے کہ جو بھی دین میں طعن  وتشنیع کرے اس قتل کرنے کا حکم ہے۔ اور توہین رسالت بھی در حقیقت دین میں طعن وتشنیع کا نام ہے۔

(4):حديث مبارکہ میں  توہین رسالت کے مرتکب کی سزا قتل ہے۔

صحیح بخاری کی  احادیث  کے صحیح ہونے میں کسی کو شک نہیں ہے۔ تو صرف دو حدیثیں پیش کی جاتی ہیں:

حدیث نمبر 1: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:«مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ، فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَقَامَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ... فَقَتَلُوهُ، ثُمَّ أَتَوُا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ ». ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: کعب بن اشرف کو  کون قتل کریگا کہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف دی ہے تو محمد بن سلمہ کھڑے ہوئے عرض کی یا رسول اللہ کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ میں اس کو قتل کروں تو  رسول اللہ صلی اللہ تعالی  علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔۔۔  پس انہوں نے کعب بن اشرف کو قتل کیا  پھر نبی کریم  صلی اللہ تعالی  علیہ وسلم کے پاس آئے اور اس قتل کی خبر دی۔[صحيح البخاری، کتاب المغازی، باب قتل کعب بن اشرف،  حدیث(4037)، جلد 5،  صفحہ 90، مطبوعہ دار طوق النجاۃ بیروت لبنان]۔

حدیث نمبر2:« بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي رَافِعٍ اليَهُودِيِّ رِجَالًا مِنَ الأَنْصَارِ، فَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَتِيكٍ، وَكَانَ أَبُو رَافِعٍ يُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُعِينُ عَلَيْهِ... ثُمَّ وَضَعْتُ ظِبَةَ السَّيْفِ فِي بَطْنِهِ حَتَّى أَخَذَ فِي ظَهْرِهِ، فَعَرَفْتُ أَنِّي قَتَلْتُهُ ». ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے انصار کے کچھ مردوں کو ابو رافع یہودی کو قتل کرنے کے لئے بھیجا اور  ان  پر عبد اللہ  بن عتیک کو امیر مقرر کیا۔ ابورافع رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ایذاء دیتا اور ایذاء دینے والوں کی مدد کرتا تھا۔۔۔ (صحابی کہتے ہیں) کہ میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھی اور وہ پیٹھ  تک اندر چلی گئی اور میں نے جان لیا کہ اب اس کو قتل کردیا ہے۔[صحيح البخاری، کتاب المغازی، باب ابی رافع یہودی،  حدیث(4039)، جلد 5،  صفحہ 91، مطبوعہ دار طوق النجاۃ بیروت لبنان]۔

یہ دونوں حدیثیں  صراحتاً  دلالت کررہی ہیں کہ توہین رسالت کے مرتکب کی سزا قتل ہے۔

(5): توہینِ رسالت کے مرتکب کو قتل کرنا  بادشاہ اسلام( حکومت وقت)  کی ذمہ داری ہے نہ کہ عام مسلمان کی۔

فتاوى عالمگیری میں: إقَامَةُ الْإِمَامِ أَوْ نَائِبِهِ فِي الْإِقَامَةِ . ترجمہ: حد کو قائم کرنا بادشاہ یا  اس کے نائب کی ذمہ داری ہے۔[ فتاوى عالمگیری، جلد  2،کتاب الحدود،الباب الاول، صفحہ 253،مطبوعہ دار الفکر بیروت لبنان]۔

ہاں! اگر حکومت وقت سزا نہ دے تو  عام مسلمان کو قتل کی اجازت ہے۔

امام تقی الدین سبکی نے فرمایا: فأي حاكم حكم من حكام الزمان ببقاء هذا الكافر نقض حكمه وأبطل وحكم بخلافه .ترجمہ: جو حكمران گستاخ کو زندہ رہنے کا حکم دے تو حاکم کے اس حکم کو توڑ دیا جائے ، باطل قرار دیا جائے اور اس کے حکم کی خلاف ورزی کی جائے(یعنی گستاخ کو قتل کیا جائے)۔[ السیف المسلول، على من سب الرسول، الباب الاول، الفصل الثامن، صفحہ 400، مطبوعہ دار الفتح، اردن]۔

جیسا کہ ہمارے ملک پاکستان میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  کی بارگاہ میں گستاخی کی تو حکم یہی تھا کہ اس کو قتل کیا جاتا،لیکن افسوس کہ حکومت وقت نے اس کی مزید حفاظت کی۔ جس کے نتیجے میں غازی ممتاز حسین قادری نے اس کو قتل کرکے واصل جہنم کیا۔

(6): اگر غیر مسلم توہینِ رسالت کا مرتکب  ہوتا ہے تو اس کو بھی قتل کیا جائے گا۔

جواب نمبر چار میں حدیث نمبر دو گزری کہ یہودی ابو رافع کو قتل کیا گیا۔

سنن ابی داود میں ہے:« عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ يَهُودِيَّةً كَانَتْ تَشْتُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقَعُ فِيهِ، فَخَنَقَهَا رَجُلٌ حَتَّى مَاتَتْ، فَأَبْطَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَمَهَا ».ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک یہودیہ عورت نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو گالی دیا کرتی تھی  تو اس کے خاوند نے اس کا گلا گھونٹ دیا  حتى کہ وہ مر گئی۔ تو رسول اللہ  صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس کے قصاص کو باطل کردیا۔[سنن ابی داود، کتاب الحدود، باب  من سب الرسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ،  حدیث(3462)، جلد 4،  صفحہ 129، مطبوعہ المکتبۃ العصریۃ،  بیروت لبنان]۔

(7):  فقہ حنفی میں توہینِ رسالت کا مرتکب مرتد ہے تو جو حکم مرتد کا ہے وہی اسی کا ہے۔ یعنی اگر توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول ہوگی۔

علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: الساب المسلم مرتد قطعاً فالكلام فيه كالكلام في المرتد فيكون قتله حداً أيضاً . ترجمہ: رسول اللہ  صلی اللہ  علیہ وسلم کو مسلمان گالی دینے  والا مرتدہے اور اس کا حکم مرتد کی طرح ہے تو اس کو بھی بطور حد قتل کیا جائیگا۔[ رسائل ابن عابدین،   الرسالۃ الخامسۃ عشرۃ، صفحہ 319]۔

علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: والمرتد بعد ثبوت ردته إذا تاب وأسلم تصح توبته ولا يقتل. ترجمہ:  مرتد کا ارتداد ثابت ہونے کے بعد جب مرتد نے توبہ کرلی اور اسلام لے آیا تو اس کی توبہ صحیح ہے اور اس کو قتل نہیں کیا جائیگا۔[ رسائل ابن عابدین،   الرسالۃ الخامسۃ عشرۃ، صفحہ 319]۔

مذہب مالکی میں اس  کو قتل کیا جائیگا اور توبہ قبول نہیں ہوگی۔

(8):   اس بات پر امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ توہین رسالت کے مرتکب کو قتل کیا جائیگا۔

امام تقی الدین سبکی نے فرمایا: أجمعت الأمة على قتل متنقصه من المسلمين وسابه.وقال أبو بكر بن المنذر: أجمع عوام أهل العلم على أن على من سب النبي صلى الله عليه وسلم القتل. وممن قال ذلك مالك بن أنس والليث وأحمدوإسحاق . ترجمہ:  مسلمانوں میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والے اور توہین کرنے والے کے قتل پر امت کا  اجماع ہے۔ اور ابو بکر بن منذر نے فرمایا کہ گروہِ اہل علم کا اجماع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والے کو قتل کیا جائے۔ اسی طرح ما لک بن انس،لیث، احمد اور اسحاق نے فرمایا۔[ السیف المسلول، على من سب الرسول، الباب الاول، الفصل الثامن، صفحہ 120، مطبوعہ دار الفتح، اردن]۔

  • مفتی محمد احسن
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء