یوم شک کا روزہ رکھنا
یوم شک کا روزہ رکھنا
الجواب بعون الملك الوهاب
صورت مسئولہ میں ضحوہ کبرٰی یعنی نصف النہار شرعی تک انتظارکریں کچھ نہ کھائیں نہ پئیں اورنہ روزے کی نیّت کریں بلکہ بغیر روزہ کی نیّت کے روزہ دور کی طرح ر ہیں،پھر اس دوران اگر ثبوت ِشرعی سے چاند کا نظر آنا ثابت ہوجائے توسب روزے کی نیت کرلیں،یہ رمضان کاروذہ ہوجائے گا، اور اگر یہ وقت گزر گیا اور کہیں سے چاند نظر آنے کا شرعی ثبوت نہ آیا تو سب کھا پی لیں کسی طرح کے روزے کی نیّت نہ کریں ،ہاں جو شخص کسی خاص دن کے روزے کا عادی ہو، اور وہ اسی شک والے دن آجائے مثلاً ایک شخص ہر پیر کو روزہ رکھتا ہے اور یہ شک والادن پیر کا ہی ہو تو وُہ شخص اِس دن اپنے پیروالے نفلی روزے کی نیت کر سکتا ہے ،لیکن خاص رمضان کے روزے کی نیت کرے یا یہ نیّت کرےکہ چاند ہو گیا تو آج رمضان کا روزہ رکھتا ہوں ورنہ نفل،تو یہ مکروہ ہےاور ایسا کرنے سے گنہ گار ہوگا۔مگر شک کے باوجود رمضان کے روزے کی نیت کرلی اور بعد میں اس دن کا رمضان ہو نا ثابت ہو گیا تویہ روزہ رمضان ہی کا شمار ہو گا ۔
چنانچہ فتاوٰی رضویہ میں ہے ۔
اگر ۲۹کی شام کو مطلع صاف ہو اور چاند نظر نہ آئے تو ۳۰ کو قاضی مفتی کوئی بھی روزہ نہ رکھے اور اگر مطلع پرابر وغبار ہوتو مفتی کو چاہئے کہ عوام کو ضحوہ کبرٰی یعنی نصف النہار شرعی تک انتظار کا حکم دے کہ جب تک کچھ نہ کھائیں پئیں،نہ روزے کی نیّت کریں، بلا نیّتِ روزہ مثل روزہ ر ہیں، اس بیچ میں اگر ثبوت شرعی سے رویت ثابت ہوجائے تو سب روزے کی نیت کرلیں روزہ رمضان ہوجائے گا، اور اگر یہ وقت گزر جائے کہیں سے ثبوت نہ آئے تو مفتی عوام کو حکم دے کہ کھائیں پئیں،ہاں جو شخص کسی خاص دن کے روزے کا عادی ہو، اور اگر اس تاریخ وُہ دن آکر پڑے مثلاً ایک شخص ہر پیر کو روزہ رکھتا ہے اور یہ دن پیر کا ہو تو وُہ اپنے اسی نفلی روزے کی نیت کر سکتا ہے شک کی وجہ سے رمضان کے روزے کی نیت کرے گا یا یہ کہ چاند ہو گیا تو آج رمضان کا روزہ رکھتا ہوں ورنہ نفل،تو گنہ گار ہوگا۔ حدیث میں ہے: من صام یوم الشک عصی اباالقاسم۱؎صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم۔ واﷲتعالیٰ اعلم جس نے یومِ شک کا روزہ رکھا اس نے حضرت ابو القاسم محمد صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم کی نافرمانی کی
( ۱؎صحیح بخاری باب اذارأیتموالہلال فصوموا قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۵۶)(فتاوٰی رضویہ :ج۱۰،ص۷۴)
اور بہارشریعت میں ہے ۔
مسئلہ ۳۳: یوم الشّک یعنی شعبان کی تیسویں تاریخ کو نفل خالص کی نیّت سے روزہ رکھ سکتے ہیں اور نفل کے سوا کوئی اور روزہ رکھا تو مکروہ ہے، خواہ مطلق روزہ کی نیّت ہو یا فرض کی یا کسی واجب کی، خواہ نیّت معیّن کی کِی ہو یا تردد کے ساتھ یہ سب صورتیں مکروہ ہیں۔ پھر اگر رمضان کی نیّت ہے تو مکروہ تحریمی ہے، ورنہ مقیم کے لیے تنزیہی اور مسافر نے اگر کسی واجب کی نیّت کی تو کراہت نہیں پھر اگر اس دن کا رمضان ہونا ثابت ہو جائے تو مقیم کے لیے بہرحال رمضان کا روزہ ہے اور اگر یہ ظاہر ہو کہ وہ شعبان کا دن تھا اور نیّت کسی واجب کی کی تھی تو جس واجب کی نیّت تھی وہ ہوا اور اگر کچھ حال نہ کُھلا تو واجب کی نیّت بے کار گئی اور مسافر نے جس کی نیّت کی بہرصورت وہی ہوا۔
مسئلہ ۳۴: اگر تیسویں تاریخ ایسے دن ہوئی کہ اس دن روزہ رکھنے کا عادی تھا تو اُسے روزہ رکھناافضل ہے، مثلاً کوئی شخص پیر یا جمعرات کا روزہ رکھا کرتا ہے اور تیسویں اسی دن پڑی تو رکھنا افضل ہے۔ یوہیں اگر چند روز پہلے سے رکھ رہا تھا تو اب یوم الشّک میں کراہت نہیں۔ کراہت اُسی صورت میں ہے کہ رمضان سے ایک ۱ یا دو ۲ دن پہلے روزہ رکھا جائے یعنی صرف تیس ۳۰ شعبان کو یا انتیس ۲۹ اور تیس ۳۰ کو۔
مسئلہ ۳۵: اگر نہ تو اس دن روزہ رکھنے کا عادی تھا نہ کئی روز پہلے سے روزے رکھے تو اب خاص لوگ روزہ رکھیں اور عوام نہ رکھیں، بلکہ عوام کے لیے یہ حکم ہے کہ ضحوہ کبریٰ تک روزہ کے مثل رہیں، اگر اس وقت تک چاند کا ثبوت ہو جائے تو رمضان کے روزے کی نیّت کر لیں ورنہ کھا پی لیں۔ خواص سے مراد یہاں علما ہی نہیں، بلکہ جو شخص یہ جانتا ہو کہ یوم الشّک میں اس طرح روزہ رکھا جاتا ہے، وہ خواص میں ہے ورنہ عوام میں۔
مسئلہ ۳۶: یوم الشّک کے روزہ میں یہ پکا ارادہ کر لے کہ یہ روزہ نفل ہے تردد نہ رہے، یوں نہ ہو کہ اگر رمضان ہے تو یہ روزہ رمضان کا ہے، ورنہ نفل کا یا یوں کہ اگر آج رمضان کا دن ہے تو یہ روزہ رمضان کا ہے، ورنہ کسی اورواجب کا کہ یہ دونوں صورتیں مکروہ ہیں۔ پھر اگر اس دن کا رمضان ہونا ثابت ہو جائے تو فرض رمضان ادا ہوگا۔ ورنہ دونوں صورتوں میں نفل ہے اور گنہگار بہرحال ہوا اور یوں بھی نیّت نہ کرے کہ یہ دن رمضان کا ہے تو روزہ ہے، ورنہ روزہ نہیں کہ اس صورت میں تو نہ نیّت ہی ہوئی، نہ روزہ ہوا اور اگرنفل کا پورا ارادہ ہے مگر کبھی کبھی دل میں یہ خیال گزر جاتا ہے کہ شاید آج رمضان کا دن ہو تو اس میں حرج نہیں۔
مسئلہ ۳۷: عوام کو جو یہ حکم دیا گیا کہ ضحوہ کبریٰ تک انتظار کریں، جس نے اس پر عمل کیا مگر بھول کر کھا لیا پھر اُس دن کا رمضان ہونا ظاہر ہوا تو روزہ کی نیت کر لے ہو جائے گا کہ انتظار کرنے والا روزہ دار کے حکم میں ہے اور بھول کر کھانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
(بہارشریعت:ج۱،ح۵،ص۹۷۲) واللہ تعالیٰ اعلم و رسولہ اعلم