پھر کے گلی گلی تباہ
پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں
دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں
پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں
دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں
رشکِ قمر ہوں رنگِ رخِ آفتاب ہوں
ذرّہ تِرا جو اے شہِ گردوں جناب ہوں
پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفیٰ کہ یوں
کیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتائے کیا کہ یوں
یادِ وطن ستم کیا دشتِ حرم سے لائی کیوں
بیٹھے بٹھائے بد نصیب سر پہ بلا اٹھائی کیوں
اہلِ صراط روحِ امیں کو خبر کریں
جاتی ہے امّتِ نبوی فرش پر کریں
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
اُن کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیے ہیں
جس راہ چل گئے ہیں کوچے بسا دیے ہیں
ہے لبِ عیسیٰ سے جاں بخشی نرالی ہاتھ میں
سنگریزے پاتے ہیں شیریں مقالی ہاتھ میں
راہِ عرفاں سے جو ہم نادیدہ رو محرم نہیں
مصطفیٰ ہے مسندِ ارشاد پر کچھ غم نہیں
وہ کمالِ حُسنِ حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں