ایسا کوئی محرم نہیں پہنچائے جو پیغام غم
تضمین بر نظم منسوب بہ زین العابدین
ایسا کوئی محرم نہیں پہنچائے جو پیغامِ غم
تو ہی کرم کر دے تجھے شاہِ مدینہ کی قسم
ہو جب کبھی تیرا گزر بادِ صبا سوئے حرم
پہنچا میری تسلیم اس جاہیں جہاں خیر الامم
اِنْ نِّلْتِ یَا رِیْحَ الصَّبَا یَوْمًا اِلٰی اَرْضِ الْحَرَمْ
بَلِّغْ سَلَامِیْ رَوْضَۃً فِیْھَا النَّبِیُّ الْمُحْتَشَمْ
میں دوں تجھے ان کا پتہ گر نہ تو پہچانے صبا
حق نے انہی کے واسطے پیدا کیے ارض و سما
رخسار سورج کی طرح ہیں چہرہ ان کا چاند سا
ہے ذات عالم کی پنہ اور ہاتھ دریا جُود کا
من وجھہ شمس الضحیٰ من خدرہ بدر الدجیٰ
من ذاتہ نور الھدیٰ من کفہ بحر الھمم
حق نے انہیں رحمت کہا اور شافع عصیاں کیا
رتبہ میں وہ سب سے سوا ہیں ختم ان سے انبیاء
وہ مہبطِ قرآن ہیں ناسخ ہیں جو ادیان کا
پہنچا جو یہ حکمِ خدا سارے صحیفے تھے فنا
قرآنہ برھاننا نسخا لاریان مضت
اذ جاء نا احکامہ لکل الصحب صاب العدم
یوں تو خلیل کبریا اور انبیاءِ با صفا
مخلوق کے ہیں پیشوا سب کو بڑا رتبہ ملا
لیکن ہیں ان سب سے سوا دُرِّ یتیم آمنہ
وہ ہی جنہیں کہتے ہیں سب مشکلکشا حاجت روا
یا مصطفیٰ یا مجتبیٰ ارحم علیٰ عصیاننا
مجبورۃاعمالنا طمعنا وذنبا و الظلم
اے ماہِ خوبانِ جہاں اے افتخارِ مرسلین
گو جلوہ گر آخر ہوئے لیکن ہو فخر الاوّلین
فرقت کے یہ رنج و عنا اب ہو گئے حد سے سوا
اس ہجر کی تلوار نے قلب و جگر زخمی کیا
وہ لوگ خوش تقدیر ہیں اور بخت ہے انکار سا
رہتے ہیں جو اس شہر میں جسمیں کہ تم ہو خسروا
سب اوّلین و آخریں تارے ہیں تم مہرِ مبیں
یہ جگمگائے رات بھر چمکے جو تم کوئی نہیں
اکبادنا مجررحۃ من سلیف ھجر المصطفیٰ
طوبیٰ لا ھل بلدۃ فیھا النب المحتشم
اے دو جہاں پر رحم حق تم ہو شفیع المجر میں
ہے آپ ہی کا آسرا جب بولیں نفسی مرسلیں
اس بیکسی کے وقت میں جب کوئی بھی اپنا نہیں
ہم بیکسوں پر نظر ہو اے رحمۃ للعالمین
یا رحمۃ للعالمین انت شفیع المذنبین
اکرم لنا یوم الحزیں فضلا و جودار الکرم
اس سالکؔ بدکار کا گو حشر میں کوئی نہیں
لیکن اُسے کیا خوف ہو جب آپ ہیں اسکے معین
مجرم ہوں میں غفار رب اور تم شفیع المذنبین
پھر کیوں کہوں بیکس ہوں یا رحمۃ للعالمین
یا رحمۃ للعالمین ادرک لزین العابدین
محبوس ایدی الظالمین فی مرکب و المزو حم