بیٹھےہیں ٹھنڈے سائے میں کوئی ہمیں اٹھائے کیوں
غوث کے در کو چھوڑ کر غیر کے در پہ جائیں کیوں
ٹکڑوں پہ جن کے ہے پلا اُن کا دیانہ کھائے کیوں
تیری گلی کا سنگ بھلا، راہ سے تیری جائے کیوں
ناز کا ہے پلا ہُوا، جھڑکیاں سب کی کھائے کیوں
یوں تو عطا پہ ہے عطا، یاں ہے سِوا خطا کے کیا
تیرا کرم ہے قادرا، پھر مجھے شرم آئے کیوں
تیرا کرم ہے موجزن، نار سے پھر ہو کیوں محن
تیرے ہی لُطف سے ہے امن، آگ ہمیں جلائے کیوں
ہم تو تِرے فقیر ہیں غیر کا خوف کیوں کریں
بیٹھے ہیں ٹھنڈے سائے میں کوئی ہمیں اُٹھائے کیوں
سایۂ مصطفٰے ہیں آپ ، رحمتِ کبریا ہیں آپ
سب پر ہے آپ کا کرم، ہم کو بھلا بھلائے کیوں
فیضِ رضاؔ سے دوستو، بُرہاںؔ کی نظم کو سُنو
سینے پہ دشمنوں کے آج، برچھی سے چبھ نہ جائے کیوں