ہے کون جو شائق ہو مری طرح ستم کا

ہے کون جو شائق ہو مری طرح ستم کا
مشتاق دل و جاں سے ہوں درد کا غم کا

یکتا ہوں وہ غمگین کہ کہیں جز مرے گھر کے
ڈھونڈوں تو پتہ تک نہ ملے رنج و الم کا

اب شوق یہ کہتا ہے وہاں پہلے ہی  پہنچے
کاغذ سے بھی آگے ہو قدم نقشِ رقم کا

اور رشک یہ کہتا ہے کوئی دیکھے نہ مضموں
کاغذ پہ نشاں بھی نہ رہے نقشِ رقم کا

وہ اپنا جفا کاری میں ثانی نہیں رکھتے
معلوم نہیں کس سے لیا درس ستم کا

وعدے تو وہ کر لیتے ہیں ایفا نہیں کرتے
کچھ پاس نہ وعدے کا انہیں ہے نہ قسم کا

اے کاش کوئی اس بُتِ طناز سے کہتا
ہے چاہنے والا ترا مہماں کوئی دم کا

دُزدیدہ نگاہوں سے مجھے آپ نے دیکھا
ممنون ہوں میں آپ کے لطف کرم کا

سنتے ہیں نعیمؔ آتے ہیں وہ بہرِ عیادت
کیا آج ستارہ مری تقدیر کا چمکا


متعلقہ

تجویزوآراء