کبھی تو مرے دل میں قرار دل ہو کر

کبھی تو مرے دل میں قرارِ دل ہو کر
کبھی ہو آتشِ غم سرد مشتعل ہو کر

 

پھر ایسا جلوہ دکھا حُسنِ بے مثالی کا
ہرے ہوں زخمِ دلِ زار مندمل ہو کر

 

مٹا دے مجھ کو کہ جلوہ نما ہو ہستی حق
مرے وجود کا پندار مضمحل ہو کر

 

عروج عالمِ رُوحانیت کہاں وہ کہاں
جو پھنس گیا ہو عناصر میں پا بگل ہو کر

 

یہ عشقِ مادیت راہزن ہے مہلک ہے
پہنچنے دے گا نہ منزل پر جاں گسل ہو کر

 

عجب مقام ہ تدبیر ہائے عالم سے
خلل فراغ میں آئے نہ مشتغل ہو کر

 

نعیم مست خدا جانے کہہ گیا کیا کیا
خرد سے دُور حماقت میں مشتمل ہو کر

 


متعلقہ

تجویزوآراء