کس کے وعدہ پہ اعتبار رہا
کس کے وعدہ پہ اعتبار رہا
مرتے مرتے بھی انتظار رہا
بزمِ اعداء میں رات جاگے ہیں
آنکھ میں شام تک خمار رہا
آنکھ وہ کیا جو اشکبار رہی
دل ہی کیا وہ جو بے قرار رہا
آنکھ وہ دید سے جو شاد رہی
دل جو دلبر سے ہمکنار رہا
آپ پہلو میں دشمنوں کے رہے
میری آنکھوں میں انتظار رہا
نہ وفا کی جناب نے مجھ سے
نہ مجھے دل پہ اختیار رہا
روتے روتے گزر گئیں راتیں
دلِ بے صبر بے قرار رہا
انتہا ہے سیاہ بختی کی
دل گرفتارِ زلفِ یار رہا
ہائے منعم کی بیکسی افسوس
نزع میں بھی وہ اشکبار رہا