مدّنظر تھی احمد رضا خان کی منقبت
مدّنظر تھی احمد رضا خان کی منقبت
آئی زباں پہ حضرت انساں کی منقبت
حُبِّ رسول میں جو فنا فی الرسول تھا
ہر منقبت اس صاحب ایماں کی منقبت
تابندہ چونکہ اس کا سلام و درود تھا
تابندہ تر ہے مرد مسلماں کی منقبت
تھا اس کا ذوق، کوثر و تسنیم میں دُھلا
اب ہر زباں پہ ذوقِ فراواں کی منقبت
اس کی زباں پہ ذکر تھا طیبہ کے چاند کا
اب عام اس کے ذکرِ فراواں کی منقبت
نازاں تھا جس پہ عاشقِ قرآن کا خطاب
ہے زَرفشاں اُس عاشقِ قرآں کی منقبت
محسوس ہو رہا ہے ستاروں میں عرش پر
لکھی ہوئی ہے احمد رضا خاں کی منقبت
میرے دل و دماغ میں بھی آگئی بہار
نازل ہوئی جو پیکرِ احساں کی منقبت
خوشبوئے زلف، احمد رخا خاں کو تھی عزیز
مجھکو عزیزؔ، زلفِ پریشاں کی منقبت