مسکراتے ہیں حسین
باغِ تسلیم و رضا میں گل کھلاتے ہیں حسین
یعنی ہنگامِ مصیبت مسکراتے ہیں حسین
برقِ عالم سوز کا عالم دکھاتے ہیں حسین
مسکرا کر قلعہ باطل کا گراتے ہیں حسین
مرضیٔ مولیٰ کی خاطر ہر ستم کو سہہ لیا
کس خوشی سے بارِ غم دل پر اٹھاتے ہیں حسین
٭…٭…٭