نور نگاہ فاطمہ آسماں جناب
منقبت در شانِ شہزادۂ عالی جاہ
حضرتِ امام علی اکبر رضی اللہ عنہٗ
نُورِ نگاہِ فاطمہ آسماں جناب
صبرِ دلِ خدیجہ پاک ارم قباب
لختِ دلِ امام حسین ابنِ بو تراب
شیرِ خدا کا شیر وہ شیروں میں انتخاب
صورت تھی انتخاب تو قامت تھا لا جواب
گیسو تھے مشک ناب تو چہرہ تھا آفتاب
چہرہ سے شاہزادہ کے اٹھا ہی تھا نقاب
مہرِ سپہر ہوگیا خجلت سے آب آب
کاکل کی شام رُخ کی سحر موسمِ شباب
سنبل نثار شام فدائے سحر موسمِ شباب
شہزادۂ جلیل علی اکبرِ جمیل
بستانِ حُسن میں گلِ خوش منظرِ شباب
پالا تھا اہلِ بیت نے آغوشِ ناز میں
شرمندہ اس کی نازگی سے شیشہ حباب
صحرائے کوفہ عالمِ انوار بن گیا
چمکا جو رَن میں فاطمہ زہرہ کا ماہتاب
خورشید جلوہ گر ہوا پشتِ مند پر
یا ہاشمی جو ان کے رُخ سے اٹھا نقاب
صولت نے مرحبا کہا شوکت تھی رجز خواں
جرأت نے باگ تھامی شجاعت نے لی رکاب
چہرہ کو اس کے دیکھ کے آنکھیں جھپک گئیں
دل کانپ اٹھے ہوگیا اعدا کو اضطراب
سنیوں میں آگ آگ گئی اعدائے دین کے
غیظ و غضب کے شعلوں سے دل ہوگے کباب
نیزہ جگر شگاف تھا اس گل کے ہاتھ میں
یا اژدھا تھا موت کا یا اسوء العقاب
چمکا کے تیغ مردوں کو نامرد کر دیا
اس سے نظر ملاتا یہ تھی کس کے دل میں تاب
کہتے تھے آج تک نہیں دیکھا کوئی جواں
ایسا شجاع ہوتا جو اس شیر کا جواب
مردانِ کار لرزہ براندام ہوگئے
شیرا فگنوں کی حالتیں ہونے لگیں خراب
کوہ پیکروں کو تیغ سے دو پارہ کر دیا
کی ضرب خود پر تو اُڑا ڈالا تا رکاب
تلوار تھی کہ صاعقہ برق بار تھا
یا از برائے رجِم شیاطین تھا شہاب
چہرہ میں آفتاب نبوت کا نُور تھا
آنکھوں میں شانِ صولتِ سرکارِ بو تراب
پیاسا رکھا جنہوں نے انہیں سیر کردیا
اس جود پر ہے آج تیری تیغ زہر آب
میدان میں اس کے حسن و ہنر دیکھ کر نعیم
حیرت سے بدحواس تھے جتنے تھے شیخ و شاب