علامت عشق کی آخر کو ظاہر ہو کے رہتی ہے
علامت عشق کی آخر کو ظاہر ہو کے رہتی ہے
...
علامت عشق کی آخر کو ظاہر ہو کے رہتی ہے
...
ہمیشہ جوش پر بحرِ کرم ہے میرے خواجہ کا
زمانہ بندۂ جود و نعم ہے میرے خواجہ کا
اُن کے روضے پہ بہاروں کی وہ زیبائی ہے
جیسے فردوس پہ فردوس اُتر آئی ہے
تم نقشِ تمنّائے قلمدانِ رضا ہو
برکات کا سورج ہو بریلی کی ضیا ہو
تیرے قدموں میں شجاعت نے قسم کھائی ہے
...
اپنے مستوں کی بھی کچھ تجھ کو خبر ہے ساقی
مجلسِ کیف تِری زیر و زبر ہے ساقی
آبگینوں میں شہیدوں کا لہو بھرتے ہیں
...
ہاتھ پکڑا ہے تو تا حشر نبھانا یا غوث
اب کسی حال میں دامن نہ چھڑانا یا غوث
پیار سے تم کو فرشتوں نے جگایا ہوگا
اور جنّت کی بہاروں میں سلایا ہوگا
خون ہے یہ شہِ لولاک کے شہزادوں کا
...