اُس پہ کھل جائے ابھی تیغِ علی کا جوہر
اُس پہ کھل جائے ابھی تیغِ علی کا جوہر
چشمِ ساقی کی اگر کوئی نظر پہچانے
اُس پہ کھل جائے ابھی تیغِ علی کا جوہر
چشمِ ساقی کی اگر کوئی نظر پہچانے
مدینے کا مسافر ہند سے پہنچا مدینے میں
قدم رکھنے کی نوبت بھی نہ آئی تھی سفینے میں
...ان موتیوں کی تابشیں دنیا کو ہیں محیط
سی پی میں گرچہ ان کو نہاں دیکھتا ہوں میں
...
موسمِ گُل ہے بہاروں کی نگہبانی ہے
میرے گھر قافلۂ عیش کی مہمانی ہے
جس سے تم روٹھو وہ برگشتۂ دنیا ہو جائے
تم جسے چاہو وہ قطرہ ہو تو دریا ہو جائے