سچائی کا امین تھا دہن ترابِ حق
سچائی کا امین تھا دھنِ ترابِ حق
حق گوئی کا نشان تھی تیغ ترابِ حق
شہر وفا میں دھوم ہے ذکرِ رسول کی
یہ بھی ہے سعی و کاوش عشق ترابِ حق
سنتا تھا درد دل کا قصہ جو غمگسار
وہ آشنا سپاس تھا شاہ ترابِ حق
تیغوں کے سائے میں پرھی جس نے نماز عشق
اس دور میں دکھاؤ تو مثل ترابِ حق
تنطیم، اتھاد اور ایمان کی لگن
اہلِ سنن کے سر پہ ہے قرض ترابِ حق
درویشی، انکساری و حبِّ نبی پاک
یہ کل متاع زیست تھی بہر ترابِ حق
یارب کمال ’’عبد‘‘ ہو مثلِ سراج حق
دیکھیں انہیں تو کہہ اٹھیں ترابِ حق
دیکھا جو عبد حق کو تو عکس جمیل ہیں
صورت و حسن سیرت شاہ ترابِ حق
تکفیر کا تلک جو کرتے تھے آج وہ
بن کر ’’منیب‘‘ آئے ہیں پیش ترابِ حق
کہتے ہیں لوگ آج کہ وہ مرد حق اٹھا
روئیں گے صدیوں جس کو بنام ترابِ حق
اک بزمِ مصطفیٰ ہے یہ، طیب بلائے آئے ہیں
دیکھے تو کوئی آکے یاں شانِ ترابِ حق
تاباؔں مقدر اپنا ہو، گر تم بھی چل سکو
اک عزم بالیقین سے راہ ترابِ حق