سیمائے کفر جبہہ کلیسا جھکا گئی
منقبت
سیمائے کفر جبہہ کلیسا جھکا گئی
کیا شان حیدری تھی زمانہ پہ چھاگئی
ہر سو چھلک رہی ہے مئے کیف و انبساط
باد نسیم آکے یہ کیا گنگنا گئی
رکھا چھپا کے پردۂ تطہیر میں اسے
اللہ کو بھی آپ کی تصویر بھاگئی
اپنی مناؤ خیر مری بدنصیبو
مولائے کائنات کی تشریف آگئی
تن بستر رسولﷺ پہ دل عرشِ آشیاں
دنیا سمجھ رہی تھی انھیں نیند آگئی
دنیا کی زندگی بھی تو ہے مشکلات سے
کیسے کہوں کہ حاجت مشکل کشاگئی
بخت سیہ چمک کہ چمکنے کا وقت ہے
ماہ رجب کی تیرھویں تاریخ آگئی
اخؔتر طلسم نرگس رعنا نہ پوچھئے
اپنے تو اپنے غیر کو اپنا بناگئی