تکتے رہتے ہیں عجب طرح سے راہ امید
تکتے رہتے ہیں عجب طرح سے راہِ اُمید
حسرت دید تماشائے نگاہِ اُمید
بند کس واسطے کی آپ نےراہ اُمید
یہ تو فرمائیے کیا دیکھا گناہِ اُمید
بے نیازی نے تری مار ہی ڈالا ہوتا
خیر سے پانچ گئے ہم پا کے پناہ اُمید
روزِ غم بھی ہیں شبِ ہجر کی صورت تاریک
ہیں خوش آیند مگر شام و پگاہِ اُمید
ہم سے کھنچتے ہو مگر ہم یہ سمجھتے ہیں کبھی
کھینچ ہی لائے گی حضرت کو سپاہِ اُمید
آپ اتنا تو سمجھئے کہ لگی رہتی ہے
آپ کے لطف پہ سرکار نگاہِ اُمید
آپ جات ہیں مرے گھر سے تو یہ یاد رہے
چھوڑ کر آئے ہیں منعم کو تباہِ اُمید