دشت مدینہ کی ہے عجب پر بہار صبح
دشتِ مدینہ کی ہے عجب پُر بہار صبح
ہر ذرّہ کی چمک سے عیاں ہیں ہزار صبح
دشتِ مدینہ کی ہے عجب پُر بہار صبح
ہر ذرّہ کی چمک سے عیاں ہیں ہزار صبح
جو نور بار ہوا آفتابِ حسنِ ملیح
ہوئے زمین و زماں کامیابِ حُسنِ ملیح
سحابِ رحمتِ باری ہے بارھویں تاریخ
کرم کا چشمۂ جاری ہے بارھویں تاریخ
ذاتِ والا پہ بار بار درود
بار بار اور بے شمار درود
رنگ چمن پسند نہ پھولوں کی بُو پسند
صحرائے طیبہ ہے دلِ بلبل کو توُ پسند
ہو اگر مدحِ کفِ پا سے منور کاغذ
عارضِ حور کی زینت ہو سراسر کاغذ
اگر چمکا مقدر خاک پاے رہرواں ہو کر
چلیں گے بیٹھتے اُٹھتے غبارِ کارواں ہو کر
مرحبا عزت و کمالِ حضور
ہے جلالِ خدا جلالِ حضور
سیر گلشن کون دیکھے دشتِ طیبہ چھوڑ کر
سوے جنت کون جائے در تمہارا چھوڑ کر