نہ کیوں آرائشیں کرتا خدا دُنیا کے ساماں میں
نہ کیوں آرائشیں کرتا خدا دُنیا کے ساماں میں
تمھیں دُولھا بنا کر بھیجنا تھا بزمِ امکاں میں
نہ کیوں آرائشیں کرتا خدا دُنیا کے ساماں میں
تمھیں دُولھا بنا کر بھیجنا تھا بزمِ امکاں میں
عجب کرم شہ والا تبار کرتے ہیں
کہ نا اُمیدوں کو اُمیدوار کرتے ہیں
سن لو میری اِلتجا اچھے میاں
میں تصدق میں فدا اَچھے میاں
دل میں ہو یاد تری گوشۂ تنہائی ہو
پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو
اے راحتِ جاں جو ترے قدموں سے لگا ہو
کیوں خاک بسر صورتِ نقشِ کفِ پَا ہو
تم ذاتِ خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو
اﷲ کو معلوم ہے کیا جانیے کیا ہو
دل درد سے بسمل کی طرح لوٹ رہا ہو
سینے پہ تسلی کو ترا ہاتھ دھرا ہو
عجب رنگ پر ہے بہارِ مدینہ
کہ سب جنتیں ہے نثارِ مدینہ
نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے
اُٹھا لے جائے تھوڑی خاک اُن کے آستانے سے
مبارک ہو وہ شہ پردہ سے باہر آنے والا ہے
گدائی کو زمانہ جس کے دَر پر آنے والا ہے