یہ ہجراں و حرماں کے صدمے اشد
یہ ہجراں و حرماں کے صدمے اشد
یہ دوری کے رنج و الم بے عدد
ہمارے غموں کی نیہں کوئی حد
نہ پیکے کہ از ما پیا مش برد
نہ بادے کہ روزے سلامش برد
بے چینی میں کچھ کمی ہے نہ کاست
نہ دل را قرارے نہ غم را دواست
ہو کس طرح سے کوئی تدبیر راست
مرا طاقتِ دیدنِ او کجاست
کہ بے خود شود ہر کہ نامش برد
بہت فکر کی ہم نے شام و پگاہ
بہت روئے راتوں بہت کھینچی آہ
نظر آئی تدبیر یہ صبح گاہ
بود سرمہ دیدہ آں خاکِ راہ
کہ مردم بصد اہتمامش برد
بہت فکر میں تھا دلِ چارہ جو
یہ کرتا تھا خود آپ سے گفتگو
میں دیکھوں انہیں اور وہ ہوں رُوبرو
چہ نیکوست بودن گرفتارِ اُو
خوشا دل کہ راہے بدامش برد
وہ سیمائے انور وہ نُورِ انام
وہ رُخ کی تجلی وہ حُسن تمام
خجل مہر ہو ایسی روشن ہو شام
چو آں می کند جلوہ از طرفِ بام
فلک رشک از طرفِ بامش برد
مجھے دیکھ کر ایسا و حشت زدہ
نسیمِ سحر کو بھی رحم آگیا
براہِ عنایت بشانِ سخا
مرا سوئے سردِ سہی چوں صبا
ہوائے قدِ خوش خراش برد
نعیم سیہ کار بے حد ہے بد
مگر لطف کی ان کے گر ہو مدد
تو حاصل ہو بے شک نعیم ابد
بہ میخانہ جامی بخود چوں رود
مگر ہمت شیخ جامش برد