ذی قدر تراب الحق، ذی جاہ تراب الحق

ذی قدر تراب الحق، ذی جاہ تراب الحق
اسرارِ شریعت کے، آگاہ تراب الحق

 

دکھلائے زمانے کو افکار کے وہ جوہر
حیرت سے پکار اُٹھے، سب واہ تراب الحق

 

کیا سوزِ بلالی تھا کیا جذبِ اویسی تھا
تو عاشق صادق تھا، واللہ تراب الحق

 

کردار کے جلووں میں کھویا تھا جہاں سارا
افسوس ہوئے رخصت، ناگاہ تراب الحق

 

سَکتے میں زمانہ ہے، رحلت کی خبر سن کر
غمگیں ہیں اہل حق، سب آہ! تراب الحق

 

تو فکرِ رضا کا اک،بے باک مجاہد تھا
فرقت ہے تری ہم کوِ جانکاہ تراب الحق

 

ہر دشمن ایماں پر، غالب تھی تری جرأت
ناکام رہے سارے، بدخواہ، تراب الحق

 

مسلک کی حفاظت سے، پیچھے نہ ہٹے تا عمر
تجھ پر نہ چلا جبر و اکراہ تراب الحق

 

بڑھ چڑھ کے سدا تو نے ملت کی حمایت کی
کس درجہ تھی ملت کی پرواہ تراب الحق

 

مدھم  نہ کبھی ہوں گے جلوے تیری حکمت کے
تو نیر ملت ہے اے شاہ تراب الحق

 

چھوڑیں گے نہ ہرگز ہم دستور عمل تیرا
تا حشر رہے گا تو ہم راہ تراب الحق

 

ذرے تیری چوکھٹ کے ہم دوش ثریا ہیں
تو عشق رسالت کا اک ماہ تراب الحق

 

تا حشر  رہے تیرے مرقد پہ گہرباری
اعزاز تجھے بخشے اللہ تراب الحق

 

کردار حسینی کے بنتے ہیں جہاں انجم
انوار کا مرکز ہے درگاہ تراب الحق

 

ہاتھوں میں ہے جن کے بھی اے شاہ تیرا دامن
وہ لوگ نہیں ہوں گے گمراہ تراب الحق

 

اعجاز و شرف تیرا کیا مجھ سے بیاں ہوگا
ہے فکر فریؔدی تو کوتاہ تراب الحق


متعلقہ

تجویزوآراء