عبدالغفور ہزاروی ، شیخ القرآن ابو الحقائق ، علامہ مولانا محمد، رحمۃ اللہ تعالی علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:عبدالغفور۔کنیت:ابوالحقائق۔لقب:شیخ القرآن ۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:شیخ القرآن علامہ عبد الغفور ہزاروی بن مولانا عبد الحمید بن مولانا محمد عالم بن فقیر غلام محمدعلیہم الرحمہ۔آپ کا سلسلسہ نسب والد کی طرف سےحضرت محمد بن حنفیہ کے ذریعے حضرت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،اور والدہ ماجدہ کی طرف سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملتاہے۔آپ کانام اخوند عبدالغفور المعروف بابا سیدو شریف علیہ الرحمہ کے نام کی نسبت سے عبدالغفور تجویز کیا گیا۔
تاریخِ ولادت: 9 ذوالحج،1329ھ،یکم دسمبر1911ء جمعۃ المبارک،حج اکبر کے دن،بوقتِ صبح،موضع چنبہ پنڈ،نزد کوٹ نجیب اللہ ضلع ایبٹ آباد ہزارہ میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔
تحصیلِ علم: ناظرہ قرآن ِ پاک اور کافیہ تک کتب والد ماجد سے پڑھیں ،بقیہ تمام علوم و فنون استاذ الاساتذہ مولانا احمد دین ،استاذ العلماء مولانا محب النبی ،بحر العلوم مولانا یار محمد بند یالوی ، استاذ شہیر مولانا قطب الدین غور غشتوی،مولانا میاں عبد الحق غور غشتوی،اور علامہ مشتاق احمد کانپوری علیہم الرحمہ سے حاصل کیے ۔مہرِ عالم پیر سید مہر علی شاہ علیہ الرحمہ سے حمد اللہ اور ملا حسن کا درس لیا ۔دورۂ حدیث کے لئے حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دار العلوم منظر اسلام سے سند ِفراغت حاصل کی۔
بیعت وخلافت: آپ شیخ الاسلام حضرت پیرسید مہر علی شاہ گولڑوی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے تھے۔
سیرت وخصائص: شیخ القرآن ابوالحقائق حضرت علامہ مولانا عبد الغفور ہزاروی علیہ الرحمہ بیک وقت مدرس،محقق،مقرر،مفسر،محدث ،عظیم مناظر،شیخِ طریقت ورہبر ِشریعت،شاعر اور مدبر سیاستدان تھے۔ساری زندگی خلوص کے ساتھ درسِ نظامی کی تمام کتابوں کی تدریس کرتے رہے۔دینی مدارس کی سالانہ تعطیلات میں"دورۂ قرآن ِحکیم"شروع کیا جس میں پورے پاکستان سے ہزاروں طلبہ آپ سے کسبِ فیض کیاکرتے تھے۔آپ نے قرآن ِ مجید فرقانِ حمید کی تعلیمات کو پورے پاکستان میں عام کیا۔اسی سے آپ "شیخ القرآن" کے لقب سے زمانہ میں مشہور ہوئے۔عبادت وریاضت، وعظ ونصیحت ،زہد وتقویٰ قائم الیل اور صائم النہار ،اور اخلاقِ حسنہ کی دولت سے متصف تھے۔
تحریک پاکستان کے حوالے سے جو نابغۂ روز شخصیات فرنگیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرتی دکھائی دیتی ہیں ان میں حضرت شیخ القرآن کا نام سرفہرست نظر آتاہے ۔اسی جرم میں ضلع گوجرانوالہ میں داخلِ زنداں بھی ہوئے۔اور اس سلسلہ میں ضلع گوجرانوالہ میں آپ کو شرفِ اولیت حاصل ہے۔آپ کا شمار ان علماء میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے سوشلزم کو کفر قرار دیتے ہوئے فتویٰ پر دستخط کئے تھے۔غیر اسلامی قوانین کی بھرپور مخالفت کی علماء سو اور عقائد مسلمین کی اصلاح فرمائی ،اور بدعقیدہ مولویوں کو مناظروں میں زبر دست شکست دی۔جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی صدر کی حیثیت سے اہل سنت کو سیاسی میدان میں عروج بخشا۔تحریکِ پاکستان میں آپ کا کردار آبِ زر سے تحریر کرنے کے قابل ہے۔1940کو منٹو پارک(اقبال پارک)لاہور میں" قرار داد ِپاکستان"منظور ہوئی تواس میں شیخ القرآن نے شرکت فرمائی اور خطاب بھی کیا۔1941میں وزیرآباد میں "پاکستان کانفرنس" منعقد کروائی اور یہ کانفرنس پنجاب میں پہلی کانفرنس تھی جس میں نظریہ پاکستان کی وضاحت کی گئی ،اور اس کانفرنس میں بانیِ پاکستان مہمانِ خصوصی تھے۔
تحریک پاکستان کے سلسلے میں ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں میں جلسہ ہورہا تھا جس میں بابائے صحافت مولانا ظفرعلی خان اور حضرت شیخ القرآن وزیر آباد سے خصوصی طور پر شریک ہوئے ،اسی علاقہ میں احراریوں کا معرکۃ الاراء جلسہ بھی ہورہا تھا احراری مقررین اپنی لچھے دار تقاریر سے عوام کو نظریہ پاکستان سے دور کرنے میں مصروف تھے، کہ اہل سنت کے اسٹیج پر حضرت شیخ القرآن فوراً مائیک پر آئے اور ایسا فصیح و بلیغ خطبہ دیا کہ لوگ احراریوں کے پنڈال سے آپ کی طرف آنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے احراریوں کا پنڈال خالی ہوگیااور مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری تنہا رہ گیا۔یہ منظر دیکھ کر بطلِ حریت مولانا ظفر علی خاں وفورِ جذبات سےبے قابو ہوگئے اور فی البدیہ ایک نظم پڑھی جس کا ایک مشہور شعریہ ہے۔
؎میں آج سے مرید ہوں عبدالغفور کا،چشمہ اُبل رہا ہے محمدﷺ کے نورکا
بند اس کے سامنے ہے بخاری کا ناطقہ،کیا ان سے ہومقابلہ اس بے شعور کا
وصال: 7 شعبان المعظم 1390ھ بمطابق 9اکتوبر 1970بروز جمعۃ المبارک،60 سال،7 ماہ 28دن کی عمر میں شہادت کے مرتبہ پر فائزہوئے آپ وزیر آباد میں مدفون ہیں۔