شیخ القرآن علامہ ابو الحقائق محمد عبد الغفور ہزاروی

شیخ القرآن علامہ عبدالغفور رحمۃ اللہ علیہ ضلع ہزارہ مغربی پاکستان میں پیدا ہوئے اور نشو ونما پائی، اپنے وطن کے علماء سےپڑھنے کے بعد بریلی کےمدرسہ منظر اسلام میں، مولانا حامد رضا سے درس حدیث کیا، بریلی سے واپسی کے بعد گجرات کی مشہور تاریخی مسجد محلہ بیگم پورہ میں ۱۹۳۵؁ھ تک امامت وخطابت اور تدریس کے فرائض انجامد یتے رہے بعدہٗ وزیر آباد کی جامع مسجد کو اپنا مرکز تبلیغ قرار دیا، جہاں تا حیات آپ کا قیام رہا،

آپ ایک بےمثل مفسر قرآن، محدث اور بلند پایہ خطیب تھے، آپ کی زبان میں جودو اور لہجہ میں شیرینی تھی، گھنٹوں آپ کا بیان جاری رہتا اور سننے والے وجد کرتے، تحریک پاکستان کے آپ زبردست موئدین م یں تھے، مسلم لیگ کےپلیٹ فارم سے آپ نے بے شمار تقریریں کیں، مشہور احراری لیڈر عطاءاللہ بخاری سے آپ کا موزنہ کرتے ہوئے ظفر علی خاں نے یہ شعر لکھے ؎

چشمہ اُبل رہا ہے محمد کے نور کا

 

میں آج سے مریدوں ہوں عبد الغفور کا

بند اس کے سامنے ہے بخاری کا ناطقہ

 

کیا اسی سےہو مقابلہ اُس بے شعور کا

آپ قومی اور مُلکی پر اسلامی نظریات کی روشنی میں اظہار خیال فرماتے تھے اور پاکستان میں سو شلزم کے زبردست مخالف تھے، ایوب خاں نےجب اوقاف کا محکمہ قائم کر کے سو شلزم کے زبردست مخالف تھے، ایوب خاں نے جب اوقاف کا محکمہ قائم کر کے سو شلزم کی طرف پہلا قدم اٹھایا تو آپ نے قوانین شرعی کی روشنی میں زبردست تنقیدیں کیں، آپ کی تقریری کایہ جملہ تاریخی محاورہ بن چکا ہے کہ محکمۂ اوقاف کو شریعت کے مطابو موڑو یا پھر اسے توڑو،۔۔۔۔۔۔۔ ختم نبوت کی تحریک میں حصہ لینے کی وجہ سےقیدو بند سےبھی دوچار ہوئے،۔۔۔ شیخ القرآن ۱۹۴۸؁ھ میں جمعیۃ العلماء پاکستان کے نائب صدر مقرر ہوئے، ۱۹۶۸؁ھ میں سندھ صوبائی جمعیۃ العلماء کے صدر منتخب کیے گئے، مولانا شاہ عبد الحامد بد ایونی مرحوم کی مرکزی صدارت سے علیحدگی کے بعد ۱۹۶۹؁ھ جنوری کے پہلے ہفتہ میں مرکزی صدر منتخب ہوئے،۔۔۔۔۔ دس۱۰؍ اکتوبر کی صبح کو فجر کی نماز کے بعد سیر کے لیے پُل پلکھو کی جانب نکلے تھے کہ پُل پر پیچھے آنے والے ٹرک کی زد میں آکر زخمی ہوگئے، اسی حالت میں بلند آواز سے کلمہ کا ورد شروع کردیا، حادثہ کے ایک گنٹہ کے بعد وزیر آبادسول اسپتال میں بروز شنبہ ۸؍شعبان۱۳۹۰؁ھ کو ہمیشہ کے لیے اپنے رب سے جا ملے، ایک لاکھ کے قریب عقیدت مندوں نے آپ کی نماز جنازہ ادا کی، کئی ہفتے قبل سے متواتر آپ اپنی موت کا ذکر کرتے تھے۔ آپ بیعت محی الدین ثانی حضرت مولانا پیر سید شاہ مہر علی گولڑوی علیہ الرحمۃ سے تھے۔۔۔۔۔ حضرت مولانا سید شریف احمد شرافت نوشاہی سجادہ نشین ساہن پال شریف نےیہ قطعہ تاریخ وفات کہا ؎

زہے مولوی پیر عبد الغفور

 

کہ روشن بُد از چہرہ اش لمعہ نور

بمعقول و منقول فرد زماں

 

قیوضات اومنتشر درجہاں

ہزاراں خلائق ن مودہ ہجوم،

 

شدہ فارغ ازوے رد درس علوم

بہ علم و عمل کامل وقت بود

 

پر توحید اہل وجود وشہود

زدنیا رواں سوئے فردوس شد

 

دراں جملہ افلاک بابوس شد

بتاریخ آں فاضل راست گو

 

ز ‘‘مغفور ناجی’’ وصالش بجو

شرافت سن عیسوی گو ضرور

 

نجوابی کرم پیشہ عبد الغفور

تجویزوآراء