شیخ القرآن حضرت علامہ مولاناعبدالغفور ہزاروی
شیخ القرآن حضرت علامہ مولاناعبدالغفور ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت علامہ عبد الغفور ہزاروی ابن مولانا عبد الحمید ابن مولانا محمد عالم ۹ ذوالحجہ دسمبر ( ۸ ۱۳۲ھ/۱۹۱۰ئ) بروز جمعہ ہری پور کے قریبی گائوں چنبہ پنڈ میں پیدا ہوئے ، کافیہ تک کتابیں والد ماجد سے پڑھیں ، بقیہ فنون میں سے زیادہ تر کتابیں استاذ الاساتذہ مولانا احمد دین (بھوئی، کیمبلپور) سے پڑھیں ۔ استاذ العلماء مولانا محب النبی ،بحر العلوم مولانا یار محمد بند یالوی ، استاذ شہیر مولانا قطب الدین غور غشتوری[1]،مولانا میاں عبد الھق غور غشتوی[2] اور علامہ مشتاق احمد کانپوری[3] سے بھی درس لیا،دورئہ حدیث کے لئے حجۃ الاسلام مولانا حامد رجا خاں بریلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دار العلوم منظر اسلام سے سند فراغت حاصل کی۔
فارگ ہونے کے بعد کچھ عرصہ بجار ضلع لائہپور اور تین سال تک مدرسہ خدام الصوفیہ گجرات میں پڑھاتے رہے ۔ ۱۹۳۵ء میں وزیر آبادریلوے اسٹیشن کے قریم ایک جامع مسجد میں تشریف لائے اور جامعہ نظامیہ کی بنیاد رکھی،یہیں آپ نے دورئہ قرآن پڑھا نے کی ابتداء کی جسے تا حیات بڑی دھوم دھام سے جاری رکھا ۔ بڑے بڑے فضلاء اس دورئہ قرآن میں شریک ہوئے۔
زمانۂ تعلیم میں آپ حضرت شیخ الاسلام خواجہ پیر مہر علی شاہ گولڑوی قدس سرہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوے اور پوری زندگی عرس کی محفل خاص میں خطاب فرماتے رہے ۔آپ نے ہر دینی اور ملی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،۱۹۴۶ء میں سنی کانفرنس بنارس میں شریک ہوئے اور پاکستان ایسی نظریاتی اسلامی مملکت کے حق میں پر زور تقریری کی،تحریک پاکستان ، ختم نبوت اور تحریک جمہوریت میں آپ کی مساعی ناقابل فراموش ہیں، ۱۹۶۸ء میں آ پ جمیعۃ علماء پاکستان کے صدر منتخب ہوئے او نہایت سر گرمی سے کام کرتے رہے [4]
حضرت علامہ عبد الغفور ہزاروی قدس سرہ گا ہے گا ہے شعرکی صورت میں اپنے جذبات کا اظہار فرماتے تھے،ان کے کلام میں بلا کا سوز تھا ، چشتی تخلص کرت تھے کھڑی شریف ، حضرت پیر ے شاہ غازی اور حضرت میاں محمد بخش قدس سرہما کے مزار پر حاضری کے وقت کئے ہوئے بعض اشعار ملاحظہ ہوں ؎
برخ مہر درخشانم تو باشی
بقد سرو خرامانم تو باشی
زخوف رہزناں ایمن نشینم
متاع دین و ایمانم تو باشی
شوم آزاد از فکر طبیباں
طبیب دردودرمانم تو باشی
ز ظلمت ہائے مر قد من نہ ترسم
جو بامن مہر تابانم تو باشی [5]
علامہ ہزاروی علوم و فنون کے بے نظیر ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ جادو بیان مقر ر بھی تھے، تصوف کے پیچیدہ مسائل کو آسان ترین لفظوں میں بیان کر دینا ان کے قادر اکلام ہونے کا بین ثبوت تھا ، جہاں مجلس وعظ میں سامعین ان کی خوش بیانی پرجھوم جھوم کر داع دیتے تھے وہاں سیاسی ستیج پر ایسی تقریر کرتے کہ بڑے بڑے سیاستدان انگشت بد نداں رہ جاتے ،
۹ اکتوبر (۱۳۹۰ھ/۱۹۷۰ء) کو وزیر آباد جی ٹی روڈ پر ٹرک کے حادثے میں جام شہادت نوش کیا ، جناب حکیم سرو سہارنپوری نے مندرجہ ذیل قطعۂ تاریخ لکھا ہے ؎
آج بے نور ہوئی محفل علم و حکمت
اٹھ گیا واقف اسرار کتاب و سنت
ذہن میں آیا ہے یہ مصر عۂ تاریخ وفات
’’اہل سنت کا امام آج ہوا ہے رخصت‘‘
حضرت مولانا پیر شریف احمد شرافت نو شاہی نے قطعۂ تاریخ وصال کہا ہے ؎
زہے مولوی پیر عبد الغفور
کہ روشن بد از چہرہ اش ملعہ نور
بمعقول و منقول فرد زماں
فیوضات او منتشر در جہاں
ہزاراں خلائق نمودہ ہجوم
شدہ فارغ ازوے ز درس علوم
بعلم و عمل کامل وقت بود
بتوحید اہل وجود و شہود
زدینا رواں سوئے فردورس شد
ورا جملہ افلاک پابوس شد
بتاریخ آں فاضل راست گو
’’زمغفورناجی‘‘ وصالش بجو
شرافت سن عیسوی گو ضرور
بخوانی ’’کرم پیشہ عبد الغفور ‘‘
[1] غلام مہر علی مولانا: الیواقیت المہریہ ، ص ۱۱۴
[2] حضرت میاں صاھب نے راقم سے بیان فرمایا۔
[3] عبد النبی کوکب ، قاضی : سیرت سالک ، ص۳۱
[4] منظور احمد خاں ،رانا: حضرت شیخ القرآن (اگست ۱۹۷۱ئ) ص ۲۸۔ ۷۳
[5] ماہنامہ حنفی لائل پور (شیخ القرآن نمبر : (نومبر ، دسمبر ۱۹۷۰ء ) ص ۱۹
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)