حضرت سید شاہ میر گیلانی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:حسن۔کنیت: ابوعبداللہ ،ابومحمد۔لقب: جمال الدین،سلطان المشائخ۔مشہورنام:سید شاہ میر گیلانی۔سلسلہ نسب اسطرح ہے: سید شاہ میر گیلانی بن حضرت سید ابو الحسن علی گیلانی بن سید مسعود گیلانی بن سید ابو العباس احمد گیلانی بن سید صفی الدین گیلانی بن سید عبد الوہاب گیلانی بن سیدنا غوث اعظم عبدالقادر گیلانی۔(رضی اللہ عنہم اجمعین)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت676ھ،بمطابق 1278ء کو "حلب"شام میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: آپ نے فقہ ، حدیث، تفسیر،اورتمام علومِ منقول و معقول اپنے والد بزرگوارحضرت سید ابو الحسن علی گیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ سید ابو علی صالح محمد گیلانی حلبی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کیے، اور متبحر عالم ہوئے۔تمام لوگ آپ کے حلقۂ درس سے استفادہ حاصل کرتے تھے۔
بیعت وخلافت: آپ اپنے والدِگرامی سید ابوالحسن علی گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے مریدوخلیفہ تھے۔روحانی بیعت اپنے جدِ امجد حضرت محبوب سبحانی سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ سے حاصل تھی۔
سیرت وخصائص: کاشفِ اسرار رب العالمین، قدوۃ المتقدمین والمتاخرین، ماہر رموزِ مقطعات فرقانی، واقف اسرار متشابہاتِ قرآنی، امام الطریقت، سلطانِ حقیقت، زبدۃ الاصفیاء سید شاہ میر گیلانی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ حضرت سید ابو الحسن علی گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند اکبر و مرید و خلیفہ اعظم و سجادہ نشین تھے۔ آپ کی ذات پر استغراقی حالت غالب رہتی تھی، سارا دن توجہ اے اللہ اور شہودِ حق میں ہی گذر جاتا۔ اخلاق و کمالات آپ نہایت پارسا جلیل القدر، ذی مراتب، عالی مناقب،قدوۂ مشایخ و زبدہ عباد و زُہاد تھے۔ولایت کے مقام میں شہباز تھے، صاحبِ مدرسہ و خانقاہ تھے۔آپ کا دستر خوان عام تھا، لنگر ہر وقت جاری رہتا، امرا ءسے اجتناب رکھتے، غریب نواز و یتیم پرور تھے۔ علمائے عراق آپ سے سندِ فضیلت حاصل کرتے تھے۔ سیر و سیاحت آپ کو ملک الٰہی کے سیر کا شوق ہوا تو والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ کی طرح سرزمینِ ہند میں تشریف لائے، اور اس علاقہ کو فیوضِ قادریہ سے لبریز کیا، اور پھر واپس حلب تشریف لے گئے۔ آپ صاحب خوارق و کرامات و عالی مقامات تھے۔
مریدین کو نصیحت: آپ نے سالکانِ طریقت کو فرمایا ہے:مخلوق سے اعراض کرو خواہ وہ تم کو قبول کریں یا رَد کریں، ملامت کرنے والوں کی ملامت سے کچھ خوف نہ کرو، اور قلب کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ حاضر رکھو، اور معنوی طور پر صحبتِ ﷺکو ہر وقت لازم سمجھو، شریعت کے مخالف اور بیجا کلام سے زبان کو بچاؤ، لا یعنی باتوں کو ترک کردو، مسلمانوں کو نصیحت کیا کرو اور اپنے مشائخِ سلسلہ کے لیے دعائے خیر کیا کرو، اور پوشیدہ و ظاہر میں اُن سے نیک ارادت رکھو، اور ظاہر و باطن میں ان کی خدمات کو لازم سمجھو، اور حضور و غیبت میں اپنے دل کا تعلق ان کے ساتھ رکھو، اور سب اولیاء اللہ سے بالعموم اور اپنے سلسلے کےمشائخ کے ساتھ بالخصوص زیادہ تعلق رکھو، اور جو کتابیں ان کی طرف منسوب ہیں اُن کا مطالعہ کیا کرو، اور اُن کی صحبت کو غنیمت جانو۔
وصال: آپ کاوصال بروز جمعۃ المبارک،8/ذوالقعدہ 766ھ،بمطابق26/جولائی1365ءکوہوا۔آپ کامزار پُر انوار "حلب"شام میں اپنے والد ماجد اور جد امجد کے پاس ہے۔
ماخذومراجع: شریف التواریخ۔تذکرہ مشائخِ قادریہ۔