بچوں کے حقوق؟ اور ایک اہم مسئلہ؟
بچوں کے حقوق؟ اور ایک اہم مسئلہ؟
الجواب بعون الملك الوهاب
والدین پر اولاد کے بہت سارے حقوق ہیں جو کہ احادیث مرفوعہ سے ثابت ہیں ، ان میں اکثر تو مستحبات ہیں جن کے ترک پروالدیں سے اصلاً مواخذہ نہیں۔ اوربعض وہ ہے جن کے متعلق آخرت میں مطالبہ ہو، مگردنیامیں بیٹے کے لئے باپ پرگرفت وجبرنہیں، نہ بیٹے کو جائزکہ باپ سے جدال ونزع کرے ،اور چند حقوق ایسےہیں کہ ان میں حاکم جبر کرسکتا ہے اوراولاد کو چارہ جوئی اوراعتراض کاحق ہے۔اورصورت مسئولہ میں آپ گناہگارنہیں ہیں ،مگر آپ سب بھائی اپنے گھر رہیں اور گھر سے کام پر آیاجایا کریں اورمستقل ایک بھائی یا باری باری کو ئی ایک بھائی مسلسل گھررہے اس سے ایک تو والدین سے قطع تعلقی نہیں ہو گی اوردوسرامذکورہ ا ٓدمی کا آنا جا بند ہو جائے گا ،اور مزید موقع کی مناسبت سے والدین کو نرمی اور پیار کے ساتھ سمجھاتے ہیں ۔
اس طرح کے ایک سوال کےجواب میں اعلیٰ حضرت امام اہل سنت اما م احمد رضاخان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتےہیں۔
اﷲ عزوجل نے اگرچہ والد کاحق ولد پرنہایت اعظم بتایا یہاں تک کہ اپنے حق کے برابر اس کاذکرفرمایا کہ اَنِ اشکر لی ولوالدیک۱؎ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا۔ مگرولد کاحق بھی والد پرعظیم رکھاہے کہ ولدمطلق اسلام، پھر خصوص جوار، پھر خصوص قرابت، پھر خصوص عیال، ان سب حقوق کاجامع ہوکر سب سے زیادہ خصوصیت خاصہ رکھتاہے، اور جس قدر خصوص بڑھتاجاتاہے حق اشدوآکد ہوتاجاتاہے۔
(۱؎ القرآن الکریم ۳۱/ ۱۴)
علمائے کرام اپنی کتب جلیلہ مثل احیاء العلوم وعین العلوم ومدخل وکیمیائے سعادت وذخیرۃ الملوک وغیرہا میں حقوق ولد سے نہایت مختصر طور پر کچھ تعرض فرمایا مگر میں صرف احادیث مرفوعہ حضورپرنورسیدعالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف توجہ کرتاہوں فضل الٰہی جل وعلا سے امید کہ فقیر کی یہ چندحرفی تحریر ایسی نافع وجامع واقع ہو کہ اس کی نظیر کتب مطولہ میں نہ ملے اس بارہ میں جس قدر حدیثیں بحمداﷲ تعالٰی اس وقت میرے حافظہ ونظر میں ہیں انہیں بالتفصیل مع تخریجات لکھے تو ایک رسالہ ہوتاہے اور غرض صرف افادہ احکام لہٰذا سردست فقط وہ حقوق کہ یہ حدیثیں ارشاد فرمارہی ہیں کمال تلخیص واختصار کے ساتھ شمار کروں، وباﷲ التوفیق:
(۱) سب سے پہلا حق وجوداولاد سے بھی پہلے یہ ہے کہ آدمی اپنا نکاح کسی رذیل کم قوم سے نہ کرے کہ بُری رگ ضرور رنگ لاتی ہے۔
(۲) دیندارلوگوں میں شادی کرے کہ بچہ پرناناوماموں کی عادات کابھی اثرپڑتاہے۔
(۳) زنگیوں حبشیوں میں قرابت نہ کرے کہ ماں کاسیاہ رنگ بچہ کو بدنمانہ کردے۔
(۴) جماع کی ابتداء بسم اﷲ سے کرے ورنہ بچہ میں شیطان شریک ہوجاتاہے۔
(۵) اس وقت شرمگاہ زن پرنظر نہ کرے کہ بچہ کے اندھے ہونے کااندیشہ ہے۔
(۶) زیادہ باتیں نہ کرے کہ گونگے یاتوتلے ہونے کاخطرہ ہے۔
(۷) مردوزن کپڑااوڑھ لیں جانوروں کی طرح برہنہ نہ ہوں کہ بچہ کے بے حیا ہونے کااندیشہ ہے۔
(۸) جب بچہ پیداہو فوراً سیدھے کان میں اذان بائیں میں تکبیر کہے کہ خلل شیطان وام الصبیان سے بچے۔
(۹) چھوہارا وغیرہ کوئی میٹھی چیزچباکر اس کے منہ میں ڈالے کہ حلاوت اخلاق کی فال حسن ہے۔
(۱۰) ساتویں اور نہ ہوسکے توچودھویں ورنہ اکیسویں دن عقیقہ کرے، دختر کے لئے ایک پسر کے لئے دو کہ اس میں بچے کاگویارہن سے چھڑاناہے۔
(۱۱) ایک ران دائی کو دے کہ بچہ کی طرف سے شکرانہ ہے۔
(۱۲) سر کے بال اُتروائے۔
(۱۳) بالوں کے برابرچاندی تول کرخیرات کرے۔
(۱۴) سرپرزعفران لگائے۔
(۱۵) نام رکھے یہاں تک کہ کچے بچے کابھی جو کم دنوں کاگرجائے ورنہ اﷲ عزوجل کے یہاں شاکی ہوگا۔
(۱۶) برانام نہ رکھے کہ بدفال بدہے۔
(۱۷) عبداﷲ، عبدالرحمن، احمد، حامدوغیرہ باعبادت وحمد کے نام یاانبیاء واولیاء یااپنے بزرگوں میں جو نیک لوگ گزرے ہوں ان کے نام پرنام رکھے کہ موجب برکت ہے خصوصاً نام پاک محمدصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کہ اس مبارک نام کی بے پایاں برکت بچہ کے دنیاوآخرت میں کام آتی ہے۔
(۱۸) جب محمدنام رکھے تو اس کی تعظیم وتکریم کرے۔
(۱۹) مجلس میں اس کے لئے جگہ چھوڑے۔
(۲۰) مارنے بُراکہنے میں احتیاط رکھے۔
(۲۱) جومانگے بروجہ مناسب دے۔
(۲۲) پیار میں چھوٹے لقب بیقدرنام نہ رکھے کہ پڑا ہوانام مشکل سے چھوٹتاہے۔
(۲۳) ماں خواہ نیک دایہ نمازی صالحہ شریف القوم سے دوسال تک دودھ پلوائے۔
(۲۴) رذیل یابدافعال عورت کے دودھ سے بچائے کہ دودھ طبیعت کو بدل دیتا ہے۔
(۲۵) بچے کانفقہ اس کی حاجت کے سب سامان مہیاکرنا خود واجب ہے جن میں حفاظت بھی داخل۔
(۲۶) اپنے حوائج وادائے واجبات شریعت سے جوکچھ بچے اس میں عزیزوں قریبوں محتاجوں غریبوں سب سے پہلے حق عیال واطفال کاہے جو ان سے بچے وہ اوروں کوپہنچے۔
(۲۷) بچہ کوپاک کمائی سے روزی دے کہ ناپاک مال ناپاک ہی عادتیں ڈالتاہے۔
(۲۸) اولاد کے ساتھ تنہاخوری نہ برتے بلکہ اپنی خواہش کو ان کی خواہش کے تابع رکھے جس اچھی چیز کو ان کا جی چاہے انہیں دے کر ان کے طفیل میں آپ بھی کھائے زیادہ نہ ہوتو انہیں کوکھلائے۔
(۲۹) خدا کی ان امانتوں کے ساتھ مہرولطف کابرتاؤ رکھے۔ انہیں پیارکرے بدن سے لپٹائے کندھے پر چڑھائے۔
(۳۰) ان کے ہنسنے کھیلنے بہلنے کی باتیں کرے ان کی دلجوئی، دلداری، رعایت ومحافظت ہروقت حتی کہ نمازوخطبہ میں بھی ملحوظ رکھے۔
(۳۱) نیامیوہ پھل پہلے انہیں کودے کہ وہ بھی تازے پھل ہیں نئے کو نیامناسب ہے۔
(۳۲) کبھی کبھی حسب ضرورت انہیں شیرینی وغیرہ کھانے، پہننے، کھیلنے کی اچھی چیز کہ شرعاً جائزہے دیتارہے۔
(۳۳) بہلانے کے لئے جھوٹا وعدہ نہ کرے بلکہ بچے سے بھی وعدہ وہی جائزہے جس کو پورا کرنے کاقصد رکھتاہو۔
(۳۴) اپنے چندبچے ہوں توجوچیز دے سب کوبرابر ویکساں دے، ایک کودوسرے پربے فضیلت دینی ترجیح نہ دے۔
(۳۵) سفر سے آئے تو ان کے لئے کچھ تحفہ ضرور لائے۔
(۳۶) بیمار ہوں توعلاج کرے۔
(۳۷) حتی الامکان سخت وموذی علاج سے بچائے۔
(۳۸) زبان کھلتے ہی اﷲ اﷲ پھر پورا کلمہ لاالٰہ الااﷲ بھرپورکلمہ طیبہ سکھائے۔
(۳۹) جب تمیزآئے ادب سکھائے کھانے، پینے، ہنسنے، بولنے، اٹھنے، بیٹھنے،چلنے، پھرنے، حیا، لحاظ، بزرگوں کی عظیم، ماں باپ، استاز اور دختر کوشوہرکے بھی اطاعت کے طرق وآداب بتائے۔
(۴۰) قرآن مجید پڑھائے۔
(۴۱) استاذ نیک، صالح، متقی، صحیح العقیدہ، سن رسیدہ کے سپرد کردے، اور دختر کونیک پارسا عورت سے پڑھوائے۔
(۴۲) بعد ختم قرآن ہمیشہ تلاوت کی تاکید رکھے۔
(۴۳) عقائد اسلام وسنت سکھائے کہ لوح سادہ فطرت اسلامی وقبول حق پرمخلوق ہے اس وقت کابتایا پتھر کی لکیرہوگا۔
(۴۴) حضوراقدس رحمت عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی محبت وتعظیم ان کے دل میں ڈالے کہ اصل ایمان وعین ایمان ہے۔
(۴۵) حضورپرنورصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے آل واصحاب واولیاء وعلماء کی محبت وعظمت تعلیم کرے کہ اصل سنت وزیورایمان بلکہ باعث بقائے ایمان ہے۔
(۴۶) سات برس کی عمر سے نماز کی زبانی تاکید شروع کردے۔
(۴۷) علم دین خصوصاً وضو، غسل، نمازوروزہ کے مسائل توکل، قناعت، زہد، اخلاص، تواضع، امانت، صدق، عدل، حیا، سلامت صدورولسان وغیرہا خوبیوں کے فضائل حرص وطمع ، حب دنیا، حب جاہ، ریا، عجب، تکبر، خیانت، کذب، ظلم، فحش، غیبت، حسد، کینہ وغیرہا برائیوں کے رذائل پڑھائے۔
(۴۸) پڑھانے سکھانے میں رفق ونرمی ملحوظ رکھے۔
(۴۹) موقع پرچشم نمائی تنبیہ تہدید کرے مگر کوسنانہ دے کہ اس کا کوسنا ان کے لئے سبب اصلاح نہ ہوگا بلکہ اور زیادہ افساد کا اندیشہ ہے۔
(۵۰) مارے تو منہ پرنہ مارے۔
(۵۱) اکثراوقات تہدیدوتخویف پرقانع رہے کوڑاقمچی اس کے پیش نظررکھے کہ دل میں رعب رہے۔
(۵۲) زمانہ تعلیم میں ایک وقت کھیلنے کابھی کہ طبیعت نشاط پرباقی رہے۔
(۵۳) مگرزنہارزنہاربُری صحبت میں نہ بیٹھنے دے کہ یارِبدمارِبد سے بدترہے۔
(۵۴) نہ ہرگز ہرگزبہادر دانش، مینابازار، مثنوی غنیمت وغیرہاکتب عشقیہ وغزلیات فسقیہ دیکھنے دے کہ نرم لکڑی جدھر جھکائے جھک جاتی ہے صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ لڑکیوں کو سورہ یوسف شریف کا ترجمہ نہ پڑھایاجائے کہ اس میں مکرزنان کاذکرفرمایا ہے، پھربچوں کو خرافات شاعرانہ میں ڈالنا کب بجاہوسکتاہے۔
(۵۵) جب دس برس کاہونماز مارکرپڑھائے۔
(۵۶) اس عمر سے اپنے خواہ کسی کے ساتھ نہ سلائے جدابچھونے جداپلنگ پراپنے پاس رکھے۔
(۵۷) جب جوان ہوشادی کردے، شادی میں وہی رعایت قوم ودین وسیرت وصورت ملحوظ رکھے۔
(۵۸) اب جو ایسا کام کہنا ہو جس میں نافرمانی کا احتمال ہو اسے امروحکم کے صیغہ سے نہ کہے بلکہ برفق ونرمی بطورمشورہ کہے کہ وہ بلائے عقوق میں نہ پڑجائے۔
(۵۹) اسے میراث سے محروم نہ کرے جیسے بعض لوگ اپنے کسی وارث کو نہ پہنچنے کی غرض سے کل جائداد دوسرے وارث یاکسی غیر کے نام لکھ دیتے ہیں۔
(۶۰) اپنے بعد مرگ بھی ان کی فکر رکھے یعنی کم سے کم دوتہائی ترکہ چھوڑجائے ثلث سے زیادہ خیرات نہ کرے۔
یہ ساٹھ ۶۰ حق توپسرودخترسب کے ہیں بلکہ دوحق اخیر میں سب وارث شریک، اور خاص پسر کے حقوق سے ہے کہ اسے لکھنا، پیرنا، سپہگری سکھائے۔ سورہ مائدہ کی تعلیم دے۔ اعلان کے ساتھ اس کاختنہ کرے۔ خاص دختر کے حقوق سے ہے کہ اس کے پیداہونے پرناخوشی نہ کرے بلکہ نعمت الٰہیہ جانے، اسے سیناپرونا کاتنا کھاناپکانا سکھائے، سورہ نور کی تعلیم دے، لکھنا ہرگز نہ سکھائے کہ احتمال فتنہ ہے، بیٹیوں سے زیادہ دلجوئی رکھے کہ ان کا دل بہت تھوڑا ہوتاہے، دینے میں انہیں اور بیٹوں کو کانٹے کی تول برابررکھے، جو چیز دے پہلے انہیں دے کربیٹوں کو دے، نوبرس کی عمر سے نہ اپنے پاس سلائے نہ بھائی وغیرہ کے ساتھ سونے دے، اس عمر سے خاص نگہداشت شروع کرے، شادی برات میں جہاں گاناناچ ہو ہرگز نہ جانے دے اگرچہ خاص اپنے بھائی کے یہاں ہوکہ گاناسخت سنگین جادوہے۔ اور ان نازک شیشوں کوتھوڑی ٹھیس بہت ہے، بلکہ ہنگاموں میں جانے کی مطلق بندش کرے گھر کو ان پر زنداں کردے بالاخانوں پرنہ رہنے دے، گھرمیں لباس وزیور سے آراستہ کرے کہ پیام رغبت کے ساتھ آئیں، جب کفوملے نکاح میں دیرنہ کرے، حتی الامکان بارہ برس کی عمرمیں بیاہ دے، زنہار کسی فاسق اجرخصوصاًبدمذہب کے نکاح میں نہ دے۔
یہ اسی حق (۸۰) ہیں کہ اس وقت کی نظرمیں احادیث مرفوعہ سے خیال میں آئے ان میں اکثر تو مستحبات ہیں جن کے ترک پراصلاً مواخذہ نہیں۔ اوربعض آخرت میں مطالبہ ہو، مگردنیامیں بیٹے کے لئے باپ پرگرفت وجبرنہیں، نہ بیٹے کو جائزکہ باپ سے جدال ونزع کرے سواچند حقوق کے کہ ان میں جبر حاکم وچارہ جوئی واعتراض کودخل ہے۔
اول نفقہ کہ باپ پرواجب ہو اور وہ نہ دے تو حاکم جبراً مقرر کرے گا، نہ مانے تو قید کیاجائے گا حالانکہ فروع کے اور کسی دین میں اصول محبوس نہیں ہوتے۔
فی ردالمحتار عن الذخیرۃ لایحبس والد وان علافی دین ولدہ وان سفل الافی النفقۃ لان فیہ اتلاف الصغیر۱؎۔ فتاوٰی شامی میں ذخیرہ کے حوالے سے نقل کیاہے والد اپنے بیٹے کے قرض کے سلسلے میں قیدنہیں کیاجاسکتا خواہ سلسلہ نسب اوپر تک بلحاظ باپ اور نیچے تک بلحاظ بیٹاچلاجائے البتہ نان نفقہ کی عدم ادائیگی کی صورت میں والد کوقید کیاجائے گا کیونکہ اس میں چھوٹے کی حق تلفی ہے۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الطلاق باب النفقۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/ ۲۷۱)
دوم رضاعت کہ ماں کے دودھ نہ ہو تو دائی رکھنا، بے تنخواہ نہ ملے تو تنخواہ دینا، واجب نہ دے توجبراً لی جائے گی جبکہ بچے کا اپنا مال نہ ہو، یوہیں ماں بعد طلاق ومرورعدت بے تنخواہ دودھ نہ پلائے تو اسے بھی تنخواہ دی جائے گی کما فی الفتح وردّ المحتار وغیرھما (جیسا کہ فتح اور ردالمحتار وغیرہ میں ہے۔ت)
سوم حضانت کہ لڑکا سات برس، لڑکی نوبرس کی عمر تک جن عورتوں مثلاً ماں نانی دادی ہیں خالہ پھپھی کے پاس رکھے جائیں گے، اگر ان میں کوئی بے تنخواہ نہ مانے اور بچہ فقیر اور باپ غنی ہے توجبراً تنخواہ دلائی جائے گی کمااوضحہ فی ردالمحتار (جیسا کہ ردالمحتار میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ت)
چہارم بعد انتہائے حضانت بچہ کو اپنی حفظ وصیانت میں لیناباپ پرواجب ہے اگرنہ لے گا حاکم جبرکرے گا کما فی ردالمحتار عن شرح المجمع (جیسا کہ شرح المجمع سے ردالمحتار میں نقل کیاگیاہے۔ت)
پنجم ان کے لئے ترکہ باقی رکھنا کہ بعد تعلق حق ورثہ یعنی بحالت مرض الموت مورث اس پرمجبور ہوتاہے یہاں تک کہ ثلث سے زائد میں اس کی وصیت بے اجازت ورثہ نافذ نہیں۔
ششم اپنے بالغ پسرخواہ دختر کو غیرکفو سے بیاہ دینا یامہرمثل میں غبن فاحش کے ساتھ مثلاً دختر کامہرمثل ہزار ہے پانسو پرنکاح کردیایا بہو کا مہرمثل پانسو ہے ہزارباندھ لینا یاپسر کانکاح کسی باندی سے یادختر کاکسی ایسے شخص سے جو مذہب یانسب یاپیشہ یاافعال یامال میں وہ نقص رکھتاہو جس کے باعث اس سے نکاح موجب عار ہو ایک بار تو ایسانکاح باپ کاکیاہوا نافذ ہوتاہے جبکہ نشہ میں نہ ہومگر دوبارہ اپنے کسی نابالغ بچے کا ایسانکاح کرے گا تواصلاً صحیح نہ ہوگا کماقدمنا فی النکاح (جیسا کہ بحث نکاح میں ہم نے اسے پہلے بیان کردیاہے۔ت)
ہفتم ختنہ میں بھی ایک صورت جبرکی ہے کہ اگر کسی شہر کے لوگ چھوڑدیں سلطان اسلام انہیں مجبورکرے گا نہ مانیں گے تو ان پر جہاد فرمائے گا کما فی الدرالمختار (جیسا کہ درمختار میں ہے۔ت)(فتاوٰی رضویہ :ج۲۴ص۹۴،۹۵)
واﷲ تعالٰی اعلم۔