باپ زندہ ہو اور اس کی اولاد بھی ہو تو قربانی کس کی طرف ہے؟

08/11/2016 AZT-21885

باپ زندہ ہو اور اس کی اولاد بھی ہو تو قربانی کس کی طرف ہے؟


السلام علیکم مفتی صاحب! میرا سوال یہ ہے کہ ایک شخص جس کا نام ابوبکر ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ اگر باپ زندہ ہو تو  فقط قربانی اسی کے نام سے ہو گی ۔ کسی اور کے نام یعنی اس کی اولاد کے نام سے نہیں ہو گی۔اور اگر کسی نے کر بھی دی تو وہ نفلی قربانی ہو گی نہ کہ واجب۔چاہے وہ لگاتار کئی سال سے کر رہے ہوں۔اور جب کہ زاہد کہتا ہے کہ باپ کی موجودگی میں بھی اولاد یا بیوی کی طرف سے قربانی ہو جاتی ہے۔شریعت کی رو سے مفتیان کرام کیا فرماتے ہیں؟ سائل:نوید خان  دہلی انڈیا

الجواب بعون الملک الوہاب

حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمۃ فتاویٰ فیض رسول میں   فرماتے ہیں:" کہ باپ اگر ہر سال مالک نصاب ہے تو اس پر ہر سال اپنے نام سے قربانی واجب ہو گی۔ اور باپ کے ساتھ بیٹا بیوی یا دوسرا کوئی مالک نصاب ہے تو اس پر بھی اپنے نام سے قربانی واجب ہو گی۔ اگر باپ نے چند سال اپنے نام قربانی کی اور مالک نصاب ہوتے ہوئے کسی سال بیٹا یا بیوی کے نام سے قربانی کی اور اپنے نام کی نہ کی تو گنہگار ہو گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ گھر میں جو مالک نصاب ہو گا اسی کے نام قربانی ہو گی ۔ چاہے متواتر کئی سال اس کے نام قربانی ہو چکی ہو۔ اور اگر گھر میں کئی مالک نصاب ہیں۔ تو یر ایک کے نام قربانی واجب ہوگی ۔ واللہ تعالیٰ ورسولہ اعلم بالصواب"۔ [فتاوی فیض رسول,جلد دوم،کتاب الاضحیہ،ص 439، شبیر برادرز، لاہور]۔

  • مفتی محمد احسن
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء